سدی گھتل

Page 1


‫سدی گھتل‬ ‫ایک حمیمت ایک افسانہ‬

‫ممصود حسنی‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫ستمبر ‪٢٠١٦‬‬


‫سدی گھتل‬ ‫اچھوں کے گھر برے اور بروں کے گھر اچھے‘ جنم لیتے‬ ‫آئے ہیں۔ اسی طرح بدترین لوگوں کے گھر بہترین لوگ‬ ‫پرورش پاتے رہے ہیں۔ اس لیے‘ کسی اچھے کے گھر برا‬ ‫یا بدترین جنم لے لیتا ہے‘ تو اس پر اس اچھے کو برا‬ ‫نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا اچھا ہونا‘ بہرصورت اپنی جگہ‬ ‫لائم رہتا ہے۔ برے کے گھر اچھا جنم لے لیتا ہے‘ تو وہ‬ ‫برا اچھا نہیں ہو جاتا۔ فرعون‘ بہرصورت فرعون ہی رہتا‬ ‫ہے۔‬ ‫بابا جی لبلہ سید علی احمد کے‘ اچھا ہونے میں کوئی شک‬ ‫نہیں۔ وہ اپنوں اور پرائیوں کے کام آتے تھے۔ ہر کسی کو‘‬ ‫نیکی اور رزق حالل کمانے اور کھانے کا‘ درس دیا کرتے‬ ‫تھے۔ ہللا کریم نے انہیں مال اوالد سے بھی خوب نوازا تھا۔‬ ‫مال غریبوں میں تمسیم کرتے‘ فرحت محسوس کرتے تھے۔‬


‫ضرورت مند کے گھر جا کر‘ اس کی حاجت پوری کرتے‬ ‫تھے۔ شکریہ ادا کرنے والے کو منع کرتے اور فرماتے‘‬ ‫میرا کیا ہے‘ سب ہللا کا ہے اور میں کون سا پلے سے دے‬ ‫رہا ہوں۔ ہللا کے دیے میں سے دے رہا ہوں۔‬ ‫ہللا نے انہیں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کی‬ ‫دونوں بیباں پردہ کی تھیں۔ وہ خود تبلیغی اور تدریسی‬ ‫کاموں میں مصروف رہتے۔ زمین اور دیگر مالی امور‘ ان‬ ‫کا خادم بااعتماد اکو فمیر انجام دیتا تھا۔ اس کی بیوی‬ ‫ففےکٹن تھی‘ لیکن مائی صاحبہ کی خدمت گزار بھی تھی۔‬ ‫بابا صاحب کے بچے کم سنی میں ہی تھے کہ بابا صاحب‬ ‫حك ہو گیے۔ جب تک اکو فمیر زندہ رہا‘ معاملہ درست چلتا‬ ‫رہا‘ ہر دو بیبیون کو‘ کسی لسم کی دلت کا سامنا نہ کرنا‬ ‫پڑا۔ کتنی اور کیا کمائی ہے‘ انہیں اس سے غرض نہ تھی‘‬ ‫بس روٹی چل رہی ہے‘ یہ ہی کافی تھا۔ اکو فمیر کے مرنے‬ ‫کے بعد‘ یہ گزرے کی زندگی فالوں میں بدل گئی۔‬ ‫اکو فمیر کا بڑا بیٹا مینا فمیر‘ اپنی ماں کے لدموں پر تھا۔‬ ‫اس نے گزرہ کا رزق بھی بند کر دیا۔ بیباں پردہ دار تھیں‬


‫اور بچے چھوٹے تھے۔ چپ اور صبر کے سوا‘ بھال کیا کر‬ ‫سکتی تھیں۔ چھوٹی بی بی نے مجبورا وطن چھوڑ دیا۔‬ ‫بڑی بی بی چند دن چلیں اور پھر وہ بھی حك ہو گئیں۔‬ ‫برے دن ہللا کسی کو نہ دکھائے۔ بابا صاحب کے ایک‬ ‫شاگرد عالم دین تھے‘ کچھ دن انہوں نے بچوں کو سمبھاال‬ ‫دیا۔ پھر وہ بھی نہ رہے۔‬ ‫مینے فمیر کے سبب‘ پہلے بےگھر پھر یہ تینوں بےوطن‬ ‫ہوئے۔ ولت ٹھہرنے والی چیز نہیں‘ دوسرا یہ شخص پر‘‬ ‫ایک سا نہیں رہتا۔ زندگی بدلتے موسموں پر استوار ہے۔‬ ‫تینوں بچے تھے‘ پھر خود بچوں والے ہو گئے۔ تکبر اور‬ ‫مال و دولت کا نشہ‘ مینے فمیر کو لے بیٹھا۔ اس سے لتل‬ ‫ہو گیا۔ جو کچھ تھا‘ عدالت کچری کھا گئی۔ جیل سے چھوٹ‬ ‫تو گیا‘ لیکن دماغی توازن کھو بیٹھا۔ لوہے کے سنگل سے‬ ‫باندھا گیا۔ اس کی بالی عمر اسی حال میں گزری۔ خیال‬ ‫رکھنا تو دور کی بات اسے کوئی گھڑے سے پانی پالنے‬ ‫واال بالی نہ رہا۔ اس نے پردہ دار اور باحیا بیبیوں اور ان‬ ‫کے بچوں کو‘ خجل خوار کیا۔ خود بھی خجل خواری اور‬ ‫ذلت کی موت مرا۔ ہاں البتہ فمیر سے گیالنی سید اور بابا‬


‫صاحب لبلہ سید علی احمد کی نسل لرار پا گیا۔ کھیواں کی‬ ‫دوسری اوالد بھی آج گیالنی سید کہالتی ہے۔‬ ‫مینے فمیر کےدوسرے بھائی کے بیٹے‘ پھندی فمیر نے‬ ‫بابا صاحب کا شجرہ چرایا‘ بابا صاحب کی اصل اوالد کو‘‬ ‫اس میں سے فارغ کر دیا۔ اپنے ابا کی اوالد اور اپنے‬ ‫بچوں تک کو‘ اس میں شامل کر دیا۔ یہ شجرہ منطوم تھا۔‬ ‫شاعر ہونا تو بڑی دور کی بات وہ تو معمولی پڑھا لکھا‬ ‫بھی نہ تھا۔ اس جرم میں ناجانے کون ناہنجار شاعر شامل‬ ‫تھا۔ ہللا اسے اس بددیانتی کے حوالہ سے ضرور پوچھے‬ ‫گا۔ مزے کی بات یہ کہ آخر میں ملکیت کے دعوے کے‬ ‫ساتھ‘ کسی دوسرے کو‘ اشاعت کی ممانعت بھی کر دی۔ وہ‬ ‫شاعر یہ بھول گیا کہ آتا کل اسلوبی فرق سے اصل اور‬ ‫الحالی کی پہچان کر لے گا۔ لدرت خدا دیکھیے‘ بابا صاحب‬ ‫کے اپنے ہاتھ کا لکھا شجرہ ان کے سب سے چھوٹے‬ ‫بیٹے کو مل گیا۔ ان کا چھوٹا بیٹا صاحب علم اور خود‬ ‫پنجابی شاعر تھا۔‬ ‫پھندی مردود‘ اپنی اصل میں رلیاں کی ناجائز اوالد تھا۔ اس‬


‫کے سردار کرتار سنگھ سے‘ دیرینہ تعلمات چلے آتے‬ ‫تھے۔ آج پھندی مردود کا مزار ہے اور اس کا بیٹا مزار کا‬ ‫مجاور ہے۔ یہ سالوں پہلے کی بات ہے کہ عمیدت کے‬ ‫مارے لوگ نہیں جانتے کہ یہ کیا‘ اس کے باپ دادا تک‬ ‫سید نہیں‘ پھندی مردو سکھ کی نسل سے ہے اور‬ ‫سکھوں میں سادات ہوتے ہی نہیں ہیں۔ سادات آل رسول‬ ‫سے ہیں۔‬ ‫اکبرا فمیر اور اس کی اوالد بابا صاحب کے کچھ بھی نہ‬ ‫تھے۔ ان کا طرز عمل ایک طرف رہا۔ بابا صاحب کا پوتا‬ ‫جفرا چکری بھی ان سے کسی طرح کم نہ رہا۔ اس نے بھی‬ ‫جدی پشتی عزت و ولار کا ستیاناس مار کر رکھ دیا۔ اسے‬ ‫عشك کے لیے دور کے عاللے کی ایک ڈومنی ملی۔ پھر‬ ‫وہ ڈومینی پرست اس کے عاللے میں ہی جا بسا۔ اس‬ ‫ڈومنی کے بہین بھائی شاہ ہو گئے۔ اصل مثل تو یہ تھی‬ ‫پہلے ساں نیم جوالہے پھر بنے درزی‬ ‫روڑ کھڑ کے سید ہوئے‬ ‫اگے بےبے دی مرضی‬


‫یہاں معاملہ الٹ ہو گیا۔ جفرا چکری کے حوالہ سے ڈوم‬ ‫سید ہو گئے۔ اس سے اگلی بات نالابل فہم ہے۔‬ ‫بی بی ڈومنی‘ جفرا چکری کی زوجہ ماجدہ جفرے چکری‬ ‫کی چچازاد کا رشتہ اپنے بھائی شفیے کے لیے لے آئی۔‬ ‫حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ رشتہ کس طرح لے آئی۔‬ ‫جالی کا باپ یعنی بابا صاحب کا بیٹا‘ ذات کے معاملہ میں‬ ‫بڑا ہی کٹر تھا۔ عشك اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ‬ ‫جفرے چکری کا ان کے ہاں آنا جانا ہی نہ تھا۔‬ ‫جفرے چکری کا باپ اور اس کا بھائی یعنی جالی کا باپ ان‬ ‫لوگوں کو سحت ناپسند کرتے تھے۔‬ ‫جالی اس ولت بارہ سال کی تھی جب کہ شفیا تنتالیس سال‬ ‫کا تھا۔‬ ‫خیر رشتہ ہو گیا‘ اگر ان میں سے کوئی زندہ ہوتا یا ان کی‬ ‫اوالد میں سے بالی ہوتا تو یہ مسلہ ضرور حل کر دیتا۔ آج‬ ‫ان کے پوتوں کے بچے بھی عمر کے آخری موسم میں‬ ‫ہیں۔‬


‫بابا صاحب کے سب چھوٹے بیٹے کا سب بڑا بیٹا جھورا‬ ‫مردود عاشموں کا آئی جی نکال۔ اس کے دائرہ استعمال میں‬ ‫کئی ایک سوہنیاں رہتیں۔ اکلوتا تھا‘ الرڈ پیار میں پال۔ مائی‬ ‫باپ نے میٹرک تک پڑھایا۔ اس دور میں یہ بہت بڑی بات‬ ‫تھی۔ پورے عاللے میں صرف ایک اور میٹرک تھا۔ باپ‬ ‫نے ضلعےدار بھرتی کروایا‘ عاللائی چھوکریوں کے لیے‬ ‫نوکری چھوڑ دی۔ ریلوے میں نوکری دلوائی‘ وہاں سے‬ ‫بھی آ گیا۔ فوج میں خود ہی بھرتی ہوا۔ خود ہی یہ پتا نہیں‬ ‫کس طرح چھوڑ کر آ گیا۔ بعدازاں اس کے باپ نے اسے‬ ‫سنٹرل بینک میں مالزمت دلوا دی۔ یہاں ٹک گیا۔‬ ‫جھورے مردود کے مائی باپ‘ بچوں سمیت گاؤں باہمنی‬ ‫واال میں رہتے تھے اور یہ ان کے مکان میں موج مستی‬ ‫کر رہا تھا۔ مکان چوں کہ شہر میں تھا اس لیے انہوں‬ ‫اپنے چھوٹے بیٹے بوبے کو پڑھائی کے لیے اس کے‬ ‫پاس چھوڑ دیا۔ اسے تو موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‬ ‫اس لیے بھائی پر توجہ کیا دیتا۔ اسے اس نے کاما بنا کر‬ ‫رکھا ہوا تھا۔‬


‫دریں اثنا ریلوے اسٹیشن پر رولتی کھلتی ایک آوارہ عورت‬ ‫مل گئی۔ وہ اسے موج مستی کے لیے گھر لے آیا۔ بوبے‘‬ ‫جس کے بھائی کے ساتھ سونے کھانے پینے کے دن تھے‬ ‫بیٹھک میں تنہا کر دیا گیا۔ صبح کام پر جاتے ہوئے باہر‬ ‫تاال لگا جاتا اور بوبا گلیاں کھچتا۔ جب جھورا مردود گھر‬ ‫آتا تاال کھولتا تو بوبا بھی گھر آ جاتا۔ لوکائی سے سیفٹی‬ ‫کے لیے چارپائی کے نیچے ایک بڑا کھڈا کھودا۔ اس میں‬ ‫صندوق رکھا۔ بی بی رولتو جلدی سے اس میں گھس جاتی۔‬ ‫پلس چھاپا ُپڑنے کو تھا کہ اتفاق سے یا خبر ہو جانے کے‬ ‫سبب‘ اس کے مائی باپ گاؤں سے شہر آئے۔ ایک چابی ان‬ ‫کے پاس بھی تھی۔ کھسر پھسر کی آوازیں سن کر بی بی‬ ‫رلتو جلدی سے صندوق میں داخل ہو گئی۔ چھومی نے‬ ‫چوں کہ دیکھ لیا تھا‘ اس نے ابا اماں کو خبر کر دی۔ اسے‬ ‫باہر نکال لیا گیا۔ سارا ماجرا دریافت کر لیا گیا۔ سدی اور‬ ‫نچھو اس ولت بہت چھوٹے تھے۔‬ ‫عزت بچانے کے لیے انھوں نے مشہور کر دیا کہ پرسوں‬ ‫جھورے کی بارات جانی ہے۔ علیا جھورے مردود کا‬ ‫لنگوٹیا تھا جب کہ شفیا جھولی چک۔ صبح ہوتے ہی علیا‬


‫لوگوں کو جھورے کی بارات پر جانے کی دعوت دینے کے‬ ‫لیے روانہ ہو گیا جب کہ شفیا گھر کا سامان باندھنے میں‬ ‫مصروف ہو گیا۔ صبح سویرے رولتو بی بی کو دلہن بنایا‬ ‫گیا۔ باندھا ہوا سامان اور رولتو بی بی کو اسٹیشن پر پنچا‬ ‫دیا گیا۔ دن چڑھا تو گھر والے اور محلے کے لوگوں کو‬ ‫ساتھ لے کر دلہن کو اسٹیشن سے الیا گیا۔ پہلے خاوند‬ ‫سے طالق لیے بغیر جھورے مردود نے رولتو بی بی کو‬ ‫بیوی بنا لیا۔ اگلے دن رشتہ دار آ گئے جھورا علیے پر‬ ‫حسب پروگرام برس پڑا کہ بارات تو کل تھی تو نے غلط‬ ‫اطالع کیوں دی۔‬ ‫جھورے کے باپ نے گاؤں کا مکان وغیرہ چھوڑ دیا اور‬ ‫شہر آ بسے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ وہ تو سوچ رہے‬ ‫تھے بھائی کی نگرانی میں بوبا پڑھ جائے گا۔ اس کے بعد‬ ‫سدی اور نچھو بھی تعلیم حاصل کر لیں گے۔ جھورا خود‬ ‫ہی جانا چاہتا تھا باپ نے دبی زبان میں ہی کہا اور وہ گھر‬ ‫چھوڑ کر چال گیا۔ کئی دن گھر میں سوگ کی سی کیفیت‬ ‫رہی۔ زندگی اپنی روانی میں آ گئی۔ جھورا اب اپنی الگ‬ ‫سے زندگی گزارنے لگا۔ اس نے معافی تالفی کے بارے‬


‫میں سوچنا تک گوارا نہ کیا۔ طرفین میں کسی لسم کا رابطہ‬ ‫بالی نہ رہا۔‬ ‫ایک دن کسی نے خبر دی کہ جھورا علیے کے ہاں آتا‬ ‫جاتا ہے۔ علیا تجاں اگ النی کو گھر لے آیا تھا۔ تجاں خاوند‬ ‫کے گھر سے لڑ کر نکلی تھی علیے کے ہتھے چڑھ گئی۔‬ ‫کچھ دن خود استعمال کرتا رہا۔ اس کی بیوی جھگڑا کرتی۔‬ ‫علیے نے اسے چالنا شروع کر دیا۔ اس کا روزگار بن گیا۔‬ ‫پھر اس نے یک مشت مال حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ‬ ‫جھورے کے ذوق و شوق سے خوب آگاہ تھا۔ جھورا پہلے‬ ‫محض ٹیسٹ بدلتا تھا پھر کچھ رلم ادا کرکے گھر لے گیا۔‬ ‫بی بی رولتو کو بتایا یہ اس کے لیے نوکرانی الیا ہے۔‬ ‫طالق اب کہ بھی نہ لی گئی۔‬ ‫جھورے کا والد اصل معاملہ جاننے کے لیے اس کے‬ ‫پیچھے پہنچ گیا۔ بات کنفرم ہو گئی تو وہ اس کے گھر سے‬ ‫باہر ہی واپس لوٹ آئے۔ رولتو کم کوس تھی۔ تجاں اگ النی‬ ‫نے اس کی خوب خدمت کی تو اسے باطور بیوی تسلیم کر‬ ‫لیا گیا۔ تجاں اگ النی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ ابھی‬


‫وہ کم سن ہی تھا کہ وہ کسی کے ساتھ نکل گئی۔ بچہ‬ ‫روڑی کی نذر کر دیا۔ وہ وہاں ہی سسکتا بلکتا جان بحك ہو‬ ‫گیا۔ جھورا مردود تالش میں نکل کھڑا ہوا۔ آخر تالش لی‬ ‫گئی۔ اسے بچے کے دکھ سے زیادہ تجاں کے مل جانے کی‬ ‫خوشی ہوئی۔ اصل میں وہ مرد کی جنسی تسکین کے گر‬ ‫خوب خوب جانتی تھی۔ کسی کے ساتھ نکل جانا اس کے‬ ‫لیے ایسی کوئی بڑی انوکھی اور شرمناک بات نہ تھی۔‬ ‫کنواری ہوتے بھی یہ کارنامہ انجام دے چکی تھی۔‬ ‫آدمی مرتا مر مر جاتا ہے لیکن فطرت بن گئی عادتیں اور‬ ‫جوانی کے پڑے شوق مشکل سے ہی جاتے ہیں۔ تجاں اگ‬ ‫النی ہر دوسرے جنسی ٹیست بدلنے والی تھی‘ جھورے‬ ‫کے کم زور پڑنے سے اس کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔‬ ‫جھورا کچا شنگرف کھا بیٹھا جو اسے موت تک لے گیا۔‬ ‫زندگی ابھی بالی تھی‘ عالج معالجے سے بہتر ہو گیا۔ اس‬ ‫کے بعد اس نے شنگرف کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ ہاں البتہ‬ ‫دوسری داوؤں سے کام نکالنے لگا۔‬ ‫ان ہی دنوں علیے نے تجاں اگ النی کے بمیہ پیسے مانگنا‬


‫شروع کر دیے۔ بار بار کے اصرار کے باوجود جب بمیہ‬ ‫رلم نہ ملی تو اس نے عاللے کے ممبر کاظمی صاحب کے‬ ‫ڈیرے پر پنچائت بال لی۔ کافی لے دے ہوئی‘ آخر نیاں دینا‬ ‫پڑا۔ ہاں البتہ رلم چوگنی ادا کرنا پڑی۔‬ ‫نچھو کا رشتہ اپنی بہن کے لڑکے تھیلے دو نمبری کے‬ ‫لیے جالی کے ساتھ شفیا کم کوس آ دھمکا۔ ان کے ابا اڑ‬ ‫گیے۔ کنبہ کےتمام لوگ آ گئے۔ سب نے اس کی بڑھ چڑھ‬ ‫کر مخالفت کی۔ ان کے ابا خوش تھے کہ معاملہ حل ہو‬ ‫جائے گا۔ طے یہ پایا کہ بوبا صبح کی نماز کے بعد جو‬ ‫فیصلہ دے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔ جالی اس دور کی‬ ‫آٹھ جماعت پڑھی ہو کر بھی اپنے خاوند شفیے کم کوس‬ ‫کی باتوں میں آ گئی۔ سب جانتے ہوئے‘ ڈومنی سوچ سے‬ ‫کام لیا۔ باپ کے خاندان کا برا بھال سوچنے کے زحمت ہی‬ ‫نہ اٹھائی۔ شفیے کے ساتھ رہتے ہوئے خود غرض ہو گئی‬ ‫تھی۔ خیر کسی کو کیلنا تھیلے دو نمبری کے دائیں ہاتھ کا‬ ‫کھیل تھا۔ شفیا بھال کس کھیت کی مولی تھا۔‬ ‫ابھی اندھیرا ہی تھا کہ جھورا مردود آ دھمکا اور اعالن کر‬


‫دیا کہ ہم نے رشتہ دیا۔ وہ یہ کہہ کر کھسک گیا۔ سب پر‬ ‫پریشانی کا لہر ٹوٹ پڑا۔ شفیے اور جالی کی چاندی ہو‬ ‫گئی۔ اصل یہ ہوا کہ تجاں اگ النی نے ہی جھورے کو‬ ‫اعالن کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس طرح شفیا اور جالی‬ ‫خوش ہو جاتے اور یہ کچھ دینے سے بچ جاتے۔ انہیں‬ ‫شائد معلوم نہ تھا کہ مائی صاحبہ نے جہیز تو تیار کر لیا‬ ‫تھا۔ پہلے جفرے کے ناعالبت اندیش عشك کے سبب جالی‬ ‫ڈوموں میں گئی اور اب نچھو جھورے مردود کے عشك‬ ‫کی بھینٹ چڑھ گئی‬ ‫غیر طالق یافتہ اور غیر منکوحہ عورتوں کے بطن سے‬ ‫پانچ بیٹے اور چھے بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سیکسی لوگوں کی‬ ‫اوالد تھیں‘ سارے بچے اپنے والدین ہر گیے۔ ہاں البتہ‬ ‫تجاں اگ النی کے بچے‘ خوصا بیٹیاں سیکس میں آگ کا‬ ‫پرنالہ نکلیں۔ بڑی لڑکی ستو نے باپ کا سانڈو جو الکھاں‬ ‫پتی تھا پھنسا لیا۔ آغاز میں وہ تجاں کی استفادہ سے حظ‬ ‫لیتا رہا۔ بیٹی کے نکاح کے بّعد تجاں اس کے بھائی سے‬ ‫اٹیچ ہو گئی۔‬


‫تجاں اگ النی نے سوت کے بڑے بیٹے کھادی کی منگنی‬ ‫مادری فیملی کی ایک لڑکی سے کر دی۔ لڑکی کوئی خاص‬ ‫نہ تھی‘ جانے کھادی اس کا گرویدہ کیوں ہو گیا۔ کھادی نیا‬ ‫نیا مالزم ہوا تھا‘ کھان پین کا ذریعہ ضرور بن گیا۔‬ ‫کھادی بشو منہ پاڑ کے عشك میں دیوانہ ہو گیا۔ اس‬ ‫دیوانگی کی وجہ نالابل فہم تھی۔ نہ پڑھی لکھی نہ سوہنی‬ ‫نہ امیر نہ سوچجی اور ناہی کوئی خاص یا عام خوبی اس‬ ‫میں موجود تھی۔ کھادی درباروں کا ہو کر رہ گیا۔ جھورے‬ ‫کو تشویش ہوئی۔ اچانک سدی گھتل کی بیوی ایک بچے کو‬ ‫جنم دے کر ہللا کو پیاری ہو گئی۔ اس کی ان حرکتوں کے‬ ‫باعث جھورے مردود اور اس کے گھر والوں سے نہ بنتی‬ ‫تھی۔ دوسرا بیوی کی موت نے اس کے حواس معطل سے‬ ‫کر دیے تھے۔ اس کے سسر نے اس کو سمبھاال دیا۔ اسے‬ ‫ہر طرح سے تشفی دی۔ وہ یہ ہی کر سکتا تھا۔ پھر اس نے‬ ‫اپنی نواسی اس سے منسوب کر دی۔ کسی حد تک وہ‬ ‫مطمن ہوا کہ چھوٹا پل جائے گا۔‬ ‫تجاں اگ النی کے ہاتھ مولع آ گیا۔ اس نے خاوند کو بشو‬


‫منہ پاڑ کی بڑی بہن رجو پیکہ پال کا رشتہ سدی گھتل کے‬ ‫لیے النے کا مشورہ دیا۔ اس طرح بشو منہ پاڑ کا رشتہ‬ ‫بڑی آسانی سے حاصل ہو جائے گا۔ ایک طرح سے وہ‬ ‫سدی گھتل سے بدال لے رہی تھی۔ وہ کب جلدی ماننے واال‬ ‫تھا۔ اس پر ہر طرح سے دباؤ ڈاال گیا لیکن وہ کسی دباؤ‬ ‫میں نہ آیا۔ انہوں نے بابا صاحب کو ہاتھ میں کرنا شروع‬ ‫کر دیا لیکن انہیں جھورے کی کسی بات کا اعتبار ہی نہ‬ ‫تھا۔ دوسری طرف یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ سدی‬ ‫گھتل نے اپنی بیوی کو کیجو کے لیے مارا ہے۔ وہ کیجو‬ ‫جس کے ساتھ سدی گھتل کا دور تک تعلك واسطہ ہی نہ‬ ‫تھا۔ سدی گھتل عشك کو بخار اور ولت ضائع کرنے کا چلن‬ ‫سمجھتا تھا۔‬ ‫‪١٢‬واں پتا چھومی کا تھا۔ پھر اس نے چھومی کو بھی ہاتھ‬ ‫میں کر لیا۔ سدی گھتل کی چھومی میں جان تھی۔ چھومی‬ ‫نے اسے گود کھالیا تھا۔ جب اسکول جاتا اس کے بال‬ ‫سنوارتی‘ گلے لگاتی‘ اس کی عمر کے مطابك چھوٹی‬ ‫چھوٹی شرارتیں بھی کرتی۔ آخر کب تک‘ سدی گھتل کو‬ ‫ہتھیار ڈالنا پڑے۔ دوسری طرف مائی صاحب بھی تجاں اگ‬


‫النی کے جھانسے میں آ گئی تھیں۔ سدی گھتل کی اصل‬ ‫غلطی یہ تھی کہ اس نے رشتہ ہو جانے کی خبر کسی کو‬ ‫نہ دی تھی۔ اس کے سسر ہی بتا دیتے۔ انو کے ممدر میں‬ ‫سدی گھتل کے گھر کا رزق ہی نہ تھا ورنہ رشتہ ضرور ہو‬ ‫جاتا۔ اگر پتا چل بھی جاتا تو اس کی کوئی نہ سنتا۔‬ ‫جس دن بارات جانا تھی سدی گھتل اکیال ہی ریلوے اسٹیشن‬ ‫پر اداس اور افسردہ بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنی مرحوم بیوی‬ ‫بہت یاد آ رہی تھی۔ بےشک وہ اچھی اور ہم درد عورت‬ ‫تھی۔ اس کے توسط سے ہللا نے سدی گھتل کو ایک ان‬ ‫مول ہیرہ بھی عطا فرمایا۔ صرف چار دن کا معصوم اور‬ ‫بےلصور بچہ‘ اس کی ماں کی روح لبض کرتے بےرحم‬ ‫موت کے ہاتھ نہ کانپے۔ اسے بھائی کی بےحسی اور‬ ‫خودغرضی پر افسوس ہو رہا تھا۔ کیسا بھائی تھا جو اپنے‬ ‫بیٹے کی خوشی کے لیے اپنے بھائی کو لربانی کا بکرا بنا‬ ‫رہا تھا۔ اب کیا کر سکتا تھا۔ رجو میکہ پال اس کے ممدر‬ ‫میں لکھی جا چکی تھی۔ اب تاسف سے کچھ ہونا ممکن نہ‬ ‫تھا۔‬


‫چھتیس سالہ رجو پیکہ پال دلہن بن کر آ گئی۔ اس نے لمحہ‬ ‫بھر کو بھی اس معصوم بچے کو گود ًمیں نہ لیا۔ بچہ سدی‬ ‫گھتل کی ستر سالہ ماں کی آغوش میں چال گیا۔ سدی گھتل‬ ‫ان دنوں باہر مالزمت پر جاتا تھا۔ صبح جاتا رات دیر گیے‬ ‫واپس آتا۔ صرف اتوار کی ایک چھٹی ہوتی۔ اس دن گھر‬ ‫کے کام کاج نپٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی ماں اور اپنے‬ ‫بچے سے بھی مل کر آتا۔ اسی مشمت میں دن گزرتے گئے۔‬ ‫بچہ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ سدی گھتل پر دوسری لیامت گزر‬ ‫گئی۔ جھورے مردود یا دوسرے لوگوں کو اس سے کیا۔‬ ‫کھادی کا عشك توڑ چڑھ گیا تھا۔ تجاں ڈانگ لےنی کے‬ ‫مماصد پورے ہو گئے تھے۔ کوئی جیے یا مرے اسے اس‬ ‫سے کیا غرض ہو سکتی تھی۔‬ ‫کتنی عجیب بات ہے کہ دوسروں کو باتیں کرنے والے‬ ‫اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ دوسروں کا برا‬ ‫کرنے والے یہ نہیں سوچتے‘ حادثاتی طور پر سہی‘ برا ان‬ ‫کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ کاش انسان کو یہ یاد رہے کہ‬ ‫اسے ایک دن موت کی آغوش میں چلے جانا ہے اور اپنے‬ ‫کیے کا حساب بھی دینا ہے۔ لرطاس حیات پر بھی اس کا‬


‫کیا کسی ناکسی سطع پر اور کسی ناکسی صورت میں‬ ‫مرلوم رہتا ہے۔ بادشاہ گزر گیے‘ مورکھ انہیں نبی لریب‬ ‫بتاتا رہا لیکن عوامی روایات میں اس کی ہر بری کرنی‬ ‫بھی محفوظ رہتی ہے۔‬ ‫ولت محو سفر رہا۔ نہ رکا اور نہ کوئی اسے روک سکا۔‬ ‫اسے تو بہرطور گزرنا ہی ہے۔ یہ اپنی اصل اور ساخت میں‬ ‫ایک سا ہی رہا ہے‘ ہاں البتہ انسانی زندگی کے لباس تبدیل‬ ‫ہوتے رہے ہیں۔ ابھی ابھی لودھی کا سکہ چل رہا تھا اس‬ ‫کے فرشتوں کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اگلے لمحے‬ ‫بابر کی جئے جئے کار ہو گی۔ بہادر شاہ تخت پر بیٹھا‬ ‫اپنے جوتوں کے انتظار میں تھا کہ انگریز داخل ہو گیا اور‬ ‫اسے ننگے پاؤں تخت سے نیچے آنا پڑا۔ اکو‘ مینا اور‬ ‫کھیواں بالی نہ رہے جفرے جھورے شفیے یا تجاں اگ‬ ‫النی کو کب بالی رہنا تھا۔ سب چلے گئے۔ ہاں ان کی کرنی‬ ‫اگلی نسلوں کو بھگتنی ہی تھی۔‬ ‫سدی گھتل‘ رجو پیکہ پال کے ہاتھوں لٹتا اور ذلیل و خوار‬ ‫ہوتا رہا۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اس کی کل کائنات تھی۔‬


‫تھیلے دو نمبری کو سدی گھتل چھبتا تھا۔ وہ اس کی‬ ‫زندگی بھر کی محنت کو اپنے کھیسے کرنے کی سوچ رہا‬ ‫تھا۔ اس نے نچھو کو کہا سدی گھتل کے ہاں صرف ایک‬ ‫لڑکا ہے‘ کیوں نہ اس کی شادی کر دی جائے۔ وہ اس کی‬ ‫باتوں میں آ گئی۔ اس نے اپنے من پسند کی عورت تالش‬ ‫لی۔ وہ عورت شیطان کی بھی نانی تھی۔ دو جگہ سے پہلے‬ ‫طالق ہو چکی تھی۔ ہللا ایسی عورت کسی جہنمی کو بھی نہ‬ ‫دے۔ وہ اپنے پہلے بانکاح اور منہ بولے خاوندوں کے‬ ‫لیے زمین پر حاویے سے بھی کہیں بڑھ کر تھی۔‬ ‫سدی گھتل باوجود کوشش کے‘ تھیلے دو نمبری سے نہ‬ ‫بچ سکا اور اس نے اس عورت سے نکاح کر ہی لیا۔ اگر‬ ‫نہ کرتا تو بہن بوہے آ بیٹھتی۔ سدی گھتل اپنے بہنوئی سے‬ ‫خوب خوب والف تھا۔‬ ‫وہ تھیلے دو نمبری کے ہاں ٹھہرائی گئی۔ رجو پہکہ پال‬ ‫اور بیٹی کو نکال باہر کرنے کا پروگرام دونوں نے طے کر‬ ‫لیا۔ سدی گھتل ہر اتوار کو وہاں جاتا خرچہ پانی دے آتا۔‬ ‫بالی دن تھیلہ دو نمبری موج میلہ کرتا اور نچھو اپنے‬


‫بھائی سدی گھتل سے کہیں بڑھ کر گھتل تھی۔ کیا ہو رہا‬ ‫ہے اسے کانوں کان خبر نہ ہوئی۔‬ ‫ایک اتوار کو جب سدی گھتل وہاں گیا تو بی بی راہ کار‬ ‫نے بتایا کہ تھیال دو نمبری اس پر آنکھ رکھتا ہے۔ وہ تو‬ ‫دو نمبری میں تھیلے کی بھی پیو تھی۔ وہ سدی گھتل کے‬ ‫مال میں اس کو کیوں ساجی ٹھہراتی۔ سدی گھتل اسے‬ ‫وہاں سے لے آیا۔‬ ‫بی بی راہ کار جہیز میں گالیوں کی پنڈ الئی۔ اس نے بہت‬ ‫سے لفظی المابات سے سدی گھتل کو سرفراز کیا۔ مثال‬ ‫ہندو‘ گندے خاندان دا‘ کنجراں دا‘ حرامدہ‘ مر ‘کافر‘ سکھ‬ ‫دا اے نہ جانن چھڈا اے‘ کنجر وغیرہ وغیرہ۔‬ ‫سدی گھتل نے بی بی راہ کار کے آگے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں‬ ‫پڑا زمین پر بیٹھ کر اپنے سر پر اس عورت کے جوتے‬ ‫مارے اور کہا اگر میں اچھا نہیں تم ہی اچھی بن جاؤ۔‬ ‫پوتڑوں کے بگڑے کب سنورتے ہیں۔ ابلیس سنور جاتا تو‬


‫آج زمین سکون نہ ہوتا۔‬ ‫اس کے بطن سے ایک لڑکے نے جنم لیا۔ سدی گھتل اس‬ ‫بچے کے لیے اس عورت کو برداشت کرتا رہا۔ وہ کنجر‬ ‫نہیں بےغیرت تھا۔ کنجر کمائی کھاتے ہیں وہ تو کمائی‬ ‫کھال رہا تھا۔ اس عورت کی نالص چلنی پھرنی کے باوجود‬ ‫اس بچے کا مستمبل بچانے کی کوشش میں تھا۔ اس عورت‬ ‫نے اسے دو بار لتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ لتل کرانے‬ ‫کی دھمکیاں بھی دیں۔ سدی گھتل صرف اس بات پر تھا کہ‬ ‫کون سا دنیا میں بیٹھ رہنا ہے‘ اس سے بہرطور برا نہ ہو۔‬ ‫چلو یہ معصوم بچہ آتے کل کو یہ نہ کہے کہ اس کے باپ‬ ‫نے اپنی تکلیف سے نجات کے لیے اسے بھی نظرانداز کر‬ ‫دیا۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ ایسی بدکردار عورت کے‬ ‫ساتھ زندگی بسر کرنا لیامت سے گزرنے سے کم نہ تھا۔‬ ‫دو نمبر بندے کو میدان زر میں شکست ہو جائے تو یہ اس‬ ‫کے لئے موت سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ وہ مناسب‬ ‫ولت کا انتظار کرنے لگا۔ سدی گھتل کی بیٹی جوان ہوئی‬ ‫تو اس نے ایک بار پھر نچھو کو مہرہ بنایا۔ نچھو نے رجو‬


‫پیکا پال کو دھیرے دھیرے سہی ہاتھ میں کر ہی لیا۔ یہاں‬ ‫رجو اور سدی کا زبردست یدھ ہوا‘ بڑا لڑا لیکن آخر مات‬ ‫اسی کے حصہ میں ائی۔‬ ‫بی بی راہ کار کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔ سدی‬ ‫کے ساتھ اب بی بی راہ کار کا میدن لگ گیا۔ وہ اس امر پر‬ ‫پہلے ہی دکھی تھا کہ ڈوم اب کنفرم سید ہو جائیں گے۔۔ بی‬ ‫بی راہ کار کے سامنے کھڑے ہونا ممکن ہی نہ تھا۔ تھیلے‬ ‫دو نمبری کے سامنے کھڑی ہوتی تو اس کی بہادری کی‬ ‫للعی کھل جاتی۔ سدی گھتل کی اولات ہی کیا تھی۔‬ ‫اب سدی گھتل کے سامنے دو رستے بالی رہ گیے تھے‬ ‫خودکشی کر لے یا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائے۔‬ ‫چھوٹا جب سامنے آتا تو اسے اس پر بڑا ترس آتا۔ سوچتا‬ ‫کیا کرے۔ آخر اس بےچارے کا کیا لصور ہے۔ اس کی اپنی‬ ‫ماں اس کے بارے میں اتنی سنجیدہ نہ تھی۔ بظاہر اس‬ ‫سے بڑا پیار کرتی تھی لیکن اپنی ضد میں اس کے مستمبل‬ ‫کی راہ میں کانٹے بو رہی تھی۔‬


‫وہ سوچ رہا تھا کہ خیر اور شر کا یدھ کیا کبھی ختم نہ ہو‬ ‫گا۔ آخر شر کی کیوں جیت ہوتی ہے۔ آخر کیوں‘ کیا خیر کو‬ ‫اسی طرح تل تل مرتے رہنا ہو گا اور ابلیس کے لہمہوں کی‬ ‫چھاؤں میں زندگی بسر کرتے رہنا ہو گی۔‬



Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.