مسٹر اردو کی نثر اور شاعری تنقیدی جائزہ

Page 1

‫مسٹر اردو کی نثر اور ش عری تنقیدی‬ ‫ج ئزہ‬ ‫تحریر‬ ‫پروفیسر محمد رض مدنی‬ ‫پرنسپل‘ گورنمنٹ ک لج‘ منچن آب د‬ ‫پ کست ن‬ ‫فری ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫مئی‬


‫مسٹر اردو کی نثر اور ش عری‪ :‬تنقیدی ج ئزہ‬ ‫مسٹر اردو کی تحریریں س دہ آس ن اور ع فہ ہوتی ہیں جسے‬ ‫سمجھنے کے لیے کسی ف س نہ ی ع لم نہ لی قت کی ضرورت‬ ‫نہیں پڑتی۔ اس ذیل میں مث لیں بھی س دہ‪ ،‬ع فہ اور روز مرہ‬ ‫کی زندگی سے دیتے ہیں‪ .‬ت ریخ سے بھی اپنے نظریے کی‬ ‫سچ ئی ث بت کرتے ہیں مثال رومن رس الخط ک ذکر کرتے ہوئے‬ ‫لکھتے ہیں؛ فوج مں رومن رس الخط رائج تھ ۔ انگریز‪ ،‬اردو‬ ‫اوردیونگری رس الخط نہیں ج نت تھ ۔ محکم نہ ترقی کے لئے‬ ‫رومن اردو اور میپ رڈنگ کے امتح ن پ س کرن ضروری تھے۔‬ ‫یہ س س ہ پ کست ن بننےکے ب د ‪ ٤‬ء تک ج ری رہ اس کے‬ ‫ب د ک مجھے ع نہیں۔‬ ‫اسی طرح جو ای فل اور پی ایچ ڈی کے داخ ہ کے لئے ٹیسٹ‬ ‫پ س کرن ضروری قرار دی گی ہے جس کو جنرل ٹیسٹ ک ن دی‬ ‫گی ہے۔ اس سے مت تحریر ک عنوان‪....‬آگہی کی راہ میں‬ ‫پتھر‪ ....‬رکھ کر بہت سی ب تیں کہھ دی ہیں انہوں نے اسے‬ ‫کم ئی ٹیسٹ ک ن دی ہے۔‬ ‫اپنی ایک تحریر میں لوگوں کے ہنر او تجربے سے است دہ' کو‬ ‫م کی ترقی ک وسی ہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خی ل میں انگریزی‬ ‫کی الزمی ت ی کے ذری ے لوگوں کو ن خواندگی کی دلدل میں‬ ‫دھکیال ج رہ ہے۔ اس ظ پر انص ف پر مبنی بحث کی ہے۔ بل‬


‫کہ اس ک من س اور ق بل عمل حل بھی پیش کی ہے۔ ع طور‬ ‫پر لوگ مرض تو بت تے ہیں مگر اس ک عالج نہیں بت تے' مسٹر‬ ‫اردو نے اس ک حل بھی تجویز کی ہے۔ لکھتے ہیں۔‬ ‫ہ ں البتہ اسن د کے اجراء ک ایک م ی ر بن ی ج سکت ہے‪ .‬مثال‬ ‫میٹرک کے لئے مت قہ ہنر ک دو س لہ تجربہ‪ +‬دو ہزار ال ظ کی‬ ‫ان کی اپنی زب ن میں تحریر' اٹنرمیڈیٹ کے لئے' میٹرک‪ +‬مت قہ‬ ‫ہنر ک چ ر س لہ تجربہ ‪ +‬پ نچ ہزار ال ظ پر مبنی ان کی اپنی‬ ‫زب ن تحریر ہے۔‬ ‫انگری زب ن کے حوالہ سے بحث کرتے ہوئے لکھ ہے کہ‬ ‫انگریزی دنی کی بہترین زب ن نہیں ہے کہ اس کے بغیر ترقی‬ ‫ممکن نہیں۔‬ ‫مسٹر اردو اس نظریے کو ب لکل تس ی نہیں کرتے اور اس‬ ‫س س ے میں لکھتے ہیں کہ برصغیر میں مخت ف قس کے لوگ‬ ‫آئے اور ان کی زب ن کے مت بھی اس قس کی ب تیں کی گئی‬ ‫تھیں۔ جوسچ ث بت نہیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کے س تھ س تھ ان کی‬ ‫زب نیں بھی خت ہو گئی ہیں پھر انگریزی زب ن کی خ میوں ک ذکر‬ ‫کرتے ہوئے مسٹر اردو لکھتے ہیں کہ نہ یت اہ آوازیں چ اور‬ ‫ش اس میں نہیں ہیں۔ اگرچہ کچھ انگریزی مرکب ت ضرور‬ ‫موجود ہیں جو یہ آوازیں پیدا کرتے ہیں مگر ان مرکب ت سے‬ ‫کئی دوسری پیدا ہونے والی آوازوں کی صحت خود انگریزی میں‬ ‫پچیدہ اور مشکوک ہے۔ اس کی نسبت برصغیر کی زب ن‬


‫(ہندی‪+‬اردو) کہیں زی دہ آس ن اور کرہ ارض کی زب ن بننے کی‬ ‫صالحیت رکھتی ہے۔ اس وقت اس کے تین رس الخط‬ ‫مست مل ہیں‪:‬‬ ‫اردو' دیو ن گری اور رومن‬ ‫مسٹر اردو کی یہ ب ت تو س کے مش ہدے میں ہے ک سے ک‬ ‫ت ی ی فتہ لوگ بھی موب ئل فون کے ذری ے اردو رومن رس‬ ‫الخط میں بڑی روانی سے اپن م ضی الضمیر دوسروں تک پہنچ‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫زب نوں میں تبدی یوں کو مسٹر اردو وٹ منز ک درجہ دیتے ہیں ان‬ ‫ک یہ موقف بھی درست ہے کہ اس سے نئے مح ورے اور نئی‬ ‫نئی اصطالح ت جن لیتی ہیں۔‬ ‫خود مسٹر اردو نے نئے مح ورے است م ل کیے ہیں جو ع فہ‬ ‫ہیں۔ تبدی ی زب ن کی مث ل دیتے ہوئے مسٹر اردو نے لکھ ہے‬ ‫کہ ق ی سرے سے کوئی ل ظ ہی نہیں لیکن ا ق ی کوئی ل ظ‬ ‫نہیں رہ آج اگر کوئی ق ی کو ق ی کہے گ تو اسے غ ط سمجھ‬ ‫ج ئے گ اسی طرح وضو سج ن کو وضو کرن لی ج ت ہے ۔‬ ‫اپنی لس نی مب حث ک ل لب مسٹر اردو نے آخری دو تحریرں‬ ‫میں دی ہے جن کےعنوان ہیں‪:‬‬ ‫ترقی اپنی زب ن میں ہی ممکن ہے‬ ‫خدا کے لیے‬


‫ان میں مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر پر کیے گئے اعتراض ت‬ ‫ک تس ی بخش جوا دی ہے۔ درست موقف کو تس ی کی ہے۔‬ ‫اعتراض ت ک جوا دی ہے۔ مثال م ترض نے لکھ کہ زب ن‬ ‫دوسرے تک اپن موقف پہنچ نےک ذری ہ ہے۔ اس کو درست‬ ‫تس ی کرتے ہوئے لکھ ہے کہ یقین ایس ہی ہے مگر ج‬ ‫م ترض نے لکھ کہ کوئی زب ن کسی سے بہتر ی اچھی نہیں‬ ‫ہوتی تو اس ک مسٹر اردو نے جوا دی کہ اس سے مراد یہ‬ ‫ہےکہ جو زب ن کھردری نہ ہو اور پیچیدگی سے پ ک ہو مثال جو‬ ‫زب ن عوامی شکل اختی ر کر گئی ہو' بالشبہ بہتر زب ن ہے۔ مگر‬ ‫ذخیرہ ال ظ دوسری زب نوں سے ک ہو ی آوازوں ک نظ ن قص‬ ‫ہو لچک پذیری میں کمی ہو ی سوشل میڈی نہ ہو تو ہ ایسی‬ ‫زب ن کو کن وجوہ کی بن پر دوسری زب نوں سے بہتر قرار دے‬ ‫سکتے ہیں۔ البتہ بری کوئی زب ن نہیں ہوتی ہ ں اس میں کہی‬ ‫گئی ب ت' اچھی ی بری ہو سکتی ہے۔‬ ‫م ترض نے ایک اعتراض یہ کی کہ انگریزی زب ن بین االقوامی‬ ‫زب ن کی شکل اختی ر کر رہی ہے تو مسٹر اردو نے اس ک جوا‬ ‫دالئل سے دیتے ہوئے کہ ہے کہ کسی م ک کی (فوجی) ط قت‬ ‫سے مرعو ہو کر تو یہ کی ج سکت ہے البتہ خود مغربی‬ ‫مم لک میں بھی ک روب ر ان کی اپنی زب ن میں ہوت ہے۔ مغربی‬ ‫مم لک میں بھی بہت سے لوگ ہندوی زب ن (اردو‪+‬ہندی) بولنے‬ ‫اور سمجھنے والے مل ج ئیں گے‪ .‬دنی کے ہر خطے میں ہندوی‬ ‫بولی اور سمجھی ج تی ہے۔ مثال یو کے اور کینیڈا میں بہت سے‬


‫لوگ ہندوی زب ن سے واقف ہیں۔ ایک اعتراض یہ بھی کی گی کہ‬ ‫زی دہ ع اور کت بیں انگریزی میں دستی ہیں۔ جس ک مسٹر‬ ‫اردو نے جوا دیتے ہوئے کہ کہ یہ بت ی ج ئے کہ دنی کی کون‬ ‫سی بڑی کت ہے' جس ک ہندوی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہر ش بہ‬ ‫سے مت مثال مذہبی لٹریچر' فنون'ش ری اد اور م شی ت‬ ‫سے مت کت بوں ک اس زب ن میں ترجمہ ہو چک ہے۔‬ ‫آخر میں مسٹر اردو نے تم بحث کو سمیٹتے ہوئے( ارب‬ ‫اختی ر سے) اپیل کی ہے کہ اس قو کی انگریزی سے ج ن‬ ‫چھڑائیں۔ ادارے مخدو نہ بنیں قو کے خ د بنیں۔ ادھ ر کی‬ ‫دک ن داری بند کریں اور س تھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کی ہے‬ ‫کہ تخت و ت ج اور وقت کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ اپنے سے‬ ‫پہ ے لوگوں کے انج کو نظر میں رکھیں۔‬ ‫مسٹراردو لس نی حیثیت سے اس زب ن کے روشن مستقبل اور‬ ‫اس کے دور رس اثرات ک فنک رانہ تجزیہ کرتے ہوئے بہت سے‬ ‫حق ئ س منے التے ہیں۔ وسیع مط ل ہ' وس ت نظری' فکری‬ ‫پختگی اور ل ظوں کے اندر چھپے امک ن ت کی دنی سے گہری‬ ‫واق یت' وہ بنی دی عن صر ہیں جو ان کی تحریروں میں نم ی ں‬ ‫ہیں۔ اپنی فنی بصیرت اوراپنے عہد کے بڑے نبض شن س ہونے‬ ‫کی حیثیت سے وہ قو کے حقیقی مرض سے بھی واقف ہیں اور‬ ‫عالج بھی ج نتے ہیں۔ بالشبہ ان کی تحریروں سے است دہ' خی ل‬ ‫کو نئی وس ت عط کرے گ ۔ ان کے نزدیک درست یہ ہے کہ اگر‬ ‫کوئی ح دثہ پیش آ ج ئے اور کسی کی ج ن بچ ن ضروری ٹھرے‬


‫تو پھر نم ز بھ ے قض ہو ج ئے ج ن ضرور بچ ئی ج ئے۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی کی تحریروں پر مبنی کت نقطہءنظر کے‬ ‫ن سے جو راق الحروف نے مدون کی ہے ۔ اس میں مذاہ اور‬ ‫حقو ال ب د کی اہمیت کے عنوان کے تحت نہ یت ت صیل سے‬ ‫حق ئ پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تم عب دات دراصل انس ن ک‬ ‫انس ن سے ت جوڑنے ک عم ی ذری ہ ہیں اور ان خرابیوں کی‬ ‫بھی نش ندہی کی گئی ہے جس ک آج کل ہر بےعمل شخص شک ر‬ ‫ہے مثال حج کر نے کے ب د بھی ک روب ر میں بدی نتی کرنے واال‬ ‫شخص اپنے آپ کو بے گن ہ سمجھت ہے اسی طرح ایک شخص‬ ‫نم ز ب جم عت ک پ بند ہے کہ خواہ کسی شخص کی ج ن چ ی‬ ‫ج ئے مگر اس کی جم عت قض نہ ہو۔‬ ‫ڈاکٹر حسنی کے نزدیک یہ اعم ل کیسے درست ہو سکتے ہیں?‬ ‫ان کے نزدیک درست یہ ہے کہ اگر ایمرجنسی ہو ج ئے تواسے‬ ‫ہسپت ل پہنچ ن ضروری ٹھہرے تو اس ح لت میں نم ز قض ہو‬ ‫ج ئے تو بھ ے ہو ج ئے مگر کسی کی ج ن ضرور بچ ئی ج ئے ۔‬ ‫ڈاکٹر حسنی لوگوں کے اخالقی وسم جی حقو کو بھی قرض‬ ‫قرار دیتے ہیں اور مذاہ کے پیروک روں کو اپنے مذہبی‬ ‫راہنم ؤں کے ح الت زندگی پڑھنے ک مشورہ دیتے ہیں۔‬ ‫عوامی نم ئندے منتخ ہونے کے ب د عوا سے جو س وک‬ ‫کرتے ہیں ڈاکٹر حسنی اس سے بہت دکھی ہوتے ہیں لہذا وہ اس‬


‫تحریر ک عنوان اسی طرح لکھتے ہیں کہ بھگوان س ز کمی کمین‬ ‫کیوں ہو ج ت ہے یوں دری کو کوزے میں بند کر دی گی ہے۔‬ ‫وہ پ کست ن بننے پر لوگوں کی قرب نیوں ک تذکرہ کرتے نیز‬ ‫پ کست ن کے حصول کے ب د اس کے مق صد کے حصول ک ذکر‬ ‫کرتے ہوئے عنوان ق ئ کرتے ہیں پ کست ن ک مط کی اس‬ ‫تحریر میں آپ نے انکش ف کی ہے کہ ق ئداعظ محمد ع ی جن ح‬ ‫نے فرم ی تھ کہ میں نے اور نہ ہی میری ورکنگ کمیٹی نے‬ ‫اور نہ آل مس لیگ کونسل نے ایس کوئی ریزولیشن پ س کی‬ ‫ہے کہ میں نے پ کست ن کے لوگوں سے پختہ عہد کی ہو۔‬ ‫پ کست ن ک مط کی ‪....‬الالہ اال هللا آپ لوگوں (ی نی عوا الن س‬ ‫میں سے چند لوگ) نے یہ چند ووٹوں کے لیے یہ ن رہ ب ند کی‬ ‫ہے۔ یہ انکش ف ک نہیں ہے ت ہ پ کست نی قو کو یہ سوچن‬ ‫چ ہیے کہ اتنی بڑی قرب نی ں رائگ ں نہیں ج نی چ ہیں اور‬ ‫پ کست ن کی ہر ح ل میں ح ظت کرنی چ ہیے۔‬ ‫ج پ نی ترقی کی مث ل ہوئے ڈاکٹر مقصود حسنی لکھتے ہیں۔ آؤ‬ ‫ج پ ن ج کر دیکھیں اس تحریر میں ایک بہت ہی اہ اور حیرت‬ ‫انگیز م وم ت سےق ری کو آگ ہ کرتے ہیں کہ سوئس بینک کے‬ ‫ڈائریکٹر سے پوچھ گی کہ پ کست ن ایک غری م ک ہے۔? اس‬ ‫نے جوا دی پ کست ن کے‪ 98‬ار ڈالر کی رق سوئس بنک میں‬ ‫پڑی ہے جو کہ تیس س ل تک ٹیکس فری بجٹ کے لیے ک فی‬ ‫ہے۔‬


‫ج چیف جسٹس آف پ کست ن اور وزیر اعظ پ کست ن کے‬ ‫درمی ن یہ م م ہ پیش آی کہ حکومت سوئس بینک کو خط لکھے‬ ‫سپری کورٹ نے حک دی اور وزیراعظ پ کست ن نے کہ کہ یہ‬ ‫آئین کے خالف ہے کیونکہ صدر پ کست ن کو استثنی ح صل ہے۔‬ ‫سپری کورٹ نے حک میں کہ کہ اس م م ے میں استثنی ح صل‬ ‫نہیں ہے تو ڈاکٹر مقصود حسنی نےایک نئے انداز سے اس کی‬ ‫توجیہ کی کہ دونوں ادارے آئین کی ب ت کرتے ہیں اور دونوں‬ ‫ادارے ک کر رہے ہیں۔ عدالت بھی اور حکومت بھی' تو کی اس‬ ‫صورت میں آئین م طل ہو چک ہے۔‬ ‫عوامی نم ئندے' مس ئل اور بیوروکریسی کے عنوان کے تحت‬ ‫پ کست ن کی ترقی کے اسب ک امریکہ سے موازنہ کرتے ہوئے‬ ‫لکھتے ہیں کہ وس ئل کی پ کست ن میں بھی کمی نہیں ہے۔ پھر‬ ‫کی وجہ ہے کہ ہ پس م ندہ ہیں حکمرانوں کے عالوہ ہر کوئی‬ ‫امریکہ سے ن رت کرت ہے مگر ہر کوئی امریکہ ج نے کے لیے‬ ‫بے چین ہے۔ اس ک سب یہ ہے کہ وہ ں عوا کو سہولتیں میسر‬ ‫اور عوا کی م لی اور م شرتی ح لت بہت اچھی ہے۔‬ ‫عدلیہ کے وق ر کی بح لی پہ ی اور آخری ضرورت کے تحت‬ ‫ڈاکٹرحسنی سقراط کی مث ل پیش کرتے ہیں کہ اس نے راہ فرار‬ ‫اختی ر کرنے کی بج ئے ری ستی آئین ک احترا کی اور زہر ک‬ ‫پی لہ ہونٹوں سے لگ لی اس طرح سقراط نے ری ستی آئین کے‬ ‫احترا کو موت پر ترجیح دی۔ اگرچہ اس س س ے میں مس م ن‬ ‫حکمرانوں کی مث لیں بھی کچھ ک نہیں۔‬


‫اپنی قو کی کمزوریوں ک تذکرہ بھی بہت دکھ سے کرتے ہیں‬ ‫اس تحریر ک عنوان ہے ہ زندہ قو ہیں جس میں ڈاکٹر حسنی‬ ‫ہم ری قو کی ن سی تی کی یت ک ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ‬ ‫ہ دم سے سوچنے کی بج ئے پیٹ سے سوچنے کےع دی ہو‬ ‫گئے ہیں س پرانے ڈاکوؤں اور موجودہ دور کے سرک ری‬ ‫عہدیداروں ک موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرک ری‬ ‫عہدیدار دراصل سرک ری ڈاکو کہالنے کے‬ ‫مستح ہیں۔ پرانے ڈاکو جنگ وں میں چھپتے پھرتے تھے یہ‬ ‫مح وں میں آب د ہیں۔‬ ‫پ کست ن بن نے والے اص ی ہیروز کو لوگ ک ج نتے ہیں لیکن‬ ‫انگریز س ختہ ہیروز کو لوگ زی دہ ج نتے ہیں۔ ضرورت اس مر‬ ‫کی ہے کہ اصل ہیروز اور ان کی قر ب نیوں کو پہچ ن ج ئے اور‬ ‫ان کی قدر کی ج ئے۔ آخر میں ڈاکٹر مقصود حسنی تم بحث کو‬ ‫ان دو عنوانوں میں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ دن ک‬ ‫آئے گ ج اص ی مجر پکڑے ج ئیں گے۔ مثال ج ی ادوی ت‬ ‫ب زار میں بک رہی ہیں۔ ان مجرموں تک کوئی رس ئی نہیں ہو‬ ‫رہی جو یہ دھندا کر رہے ہیں۔ میڈیل سٹور سے لے کر اص ی‬ ‫سرغنہ تک کیوں نہیں پہنچ ج سکت اور ک ٹیکس کی آمدنی‬ ‫عوا کی بھالئی پر خرچ ہوگی۔‬ ‫پھر جمہورت کے ب رے میں ڈاکٹر حسنی لکھتے ہیں کہ ج‬ ‫ووٹ ڈالے ج رہے ہوتے ہیں تو ان میں سے ب ض ایسے م و‬


‫ہوتے ہیں کہ جیسے زندہ الشیں ہوں۔ کبھی چودھری کے بندے‬ ‫زبردستی ووٹ ڈلواتے ہیں کبھی ووٹ خریدے ج تے ہیں ۔ ج‬ ‫کوئی امیدوار ک می قرار پ ت ہے تو وہ اکثریت میں ووٹ ح صل‬ ‫کرت ہے? مثال پ نچ امیدواروں میں جیتنے واال اپنے کل ووٹوں‬ ‫ک ایک تہ ئی ی اس سے بھی ک ووٹ حصل کر پ ت ہے ۔ اس‬ ‫طرح وہ اکثریت ک نہیں ب کہ اق یت ک نم ئندہ ہوت ہے۔‬ ‫آخر میں اس تم بحث ک خالصہ ڈاکٹر حسنی یہ پیش کرتے ہیں‬ ‫کہ بہتری اور خوشح لی کی توقع ایم ندار اور ص ح تقوی‬ ‫لوگوں سے کی ج سکتی ہے دوسرا زندگی کے تم ش بوں سے‬ ‫مت لوگوں کواقتدار میں الی ج ئے۔ مثال صحت کی وزارت‬ ‫ڈاکٹر ہی بہتر چال سکت ہے۔ ت ی کی وزارت ت ی سے مت‬ ‫لوگوں کے سپرد کی ج ئے۔‬ ‫ڈاکٹر حسنی ایک حقیقی اور سچ مس م ن ہونے کے س تھ س تھ‬ ‫ایک مخ ص پ کست نی ہیں اور اخالص و ہمدردی پر مبنی اپن‬ ‫ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں جو انس نی خدمت انس نی‬ ‫بھالئی اور حقیقی نیکی پر مبنی اور اسالمی ت یم ت کی اصل‬ ‫روح کے مط ب ہے۔ ڈاکٹر حسنی تقریب تم مذاہ ع ل سے‬ ‫مت م وم ت رکھتے ہیں تبھی وہ تم ادی ن کے لوگوں کو‬ ‫اپنے اپنے مذاہ کے ب نیوں کے ح الت زندگی کے مط ل ے ک‬ ‫مشورہ دیتے ہیں اور تم مذاہ کے ب نیوں کو اع ی اقتدار ک‬ ‫گردانے ہیں۔‬


‫‪..............‬‬ ‫مسٹر اردو کی طنزومزاح پر مبنی کچھ تحریروں کو راق‬ ‫الحروف نے مدون کی ہے اس میں مسٹر اردو کی تخ یقی‬ ‫صالحیتوں کو دیکھتے ہی بنتی ہے اور طنزومزاح کی خوبی ں‬ ‫بھی میرے نزدیک کئی ایک ق بل ذکر ہیں۔‬ ‫مسٹر اردو لس نی مب حث تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں‬ ‫رکھتے۔ ب کہ کئی اہ موضوع ت کے ب رے میں اپن خ ص نقطہ‬ ‫نظر بھی رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف سنجیدہ تحریریں رق کرتے‬ ‫ہیں ب کہ طنزومزاح کے ذری ے بھی بہت سے اہ موضوع ت پر‬ ‫اظہ ر قدرت رکھتے ہیں۔ یہ کہن بھی زی دہ موزوں ہو گ کہ وہ‬ ‫ب ض اوقت ایسی ب تیں طنزو مزاح کے پیرایے میں کہہ ج تے‬ ‫ہیں جو ش ید سنجیدگی سے کہن اگر ن ممکن نہیں تو مشکل‬ ‫ضرور ہے۔‬ ‫ایک تحریر کے عنوان‪ ....‬ب ی کے گ ے میں گھنٹی کون ب ندھے‬ ‫گ ‪ ....‬رکھ کر اس میں سرم ئے اور اختی رات کے ن ج ئز است م ل‬ ‫ک ذکر بہت اچھے پیرائے میں کرتے ہوئے آخر ک راس نتیجے‬ ‫پر پہنچتے ہیں کہ کون اس کو روکنے کی جس رت کرے گ‬ ‫جیسے چوہوں کے لیے ب ی کے گ ے میں گھنٹی ب ندھن مشکل‬ ‫ہے۔ اسی طرح ان ط قتور لوگوں ی نی واپڈا مالزمین اور ب اثر‬ ‫افراد سے بج ی کے ن ج ئز است م ل ک تدراک مشکل ہے۔‬ ‫امریکہ دہری پ لیسی ی دہرا م ی ر کہ وہ جتنے چ ہے م صو‬


‫لوگ م رے اسے کوئی پوچھ نہیں سکت وہ جس ب ت کو بنی دی‬ ‫ح قرار دے وہی بنی د انس نی ح ہے ۔ جس ب ت کو وہ دہشت‬ ‫گردی قرار دے وہی دہشت گردی ہے۔ اس تحریر ک عنوان ہی‬ ‫بت ت ہے کہ اس تحریر میں کی لکھ گی ہے۔‬ ‫ہم رے لودھی ص ح اور امریکہ کی دو سیری ں‬ ‫مسٹر اردو ق ری کی م وم ت میں بہت زی دہ اض فہ بھی کرتے‬ ‫ہیں۔ دوسیریوں واال م م ہ اکثر لوگ ج نتے ہیں کہ کچھ لوگ جو‬ ‫تج رت میں' لین دین اور ن پ تول میں بدی نتی کرتے ہیں۔ ان کے‬ ‫چیز لینے کے اوزان اور ہوتے ہیں اور چیز دینے کے اوزان‬ ‫اور۔ ت ہ یہ کوڈ ورڈ ہمیں ان کی تحریر سے پتہ چ ے ہیں کہ‬ ‫ج ح جی ص ح کو چیز لینے والی دوسیری چ ہیے ہوتی تو‬ ‫اپنی بیٹی کو الحمدهللا کہتے ۔ اور ج کوئی چیز دینے والی‬ ‫دوسیری چ ہیے ہوتی تو ح جی ص ح اپنی بیٹی کو سبح ن هللا‬ ‫کہہ کر آگ ہ فرم تے۔‬ ‫مسٹر اردو ال ظ ک ایس انتخ کرتے ہیں کہ ش ید اس سے بہتر‬ ‫انتخ ممکن نہ ہو۔ ان کے مض مین کے عنوان بھی بڑے‬ ‫اچھوتے ہوتے ہیں۔ مثال‬ ‫لوڈ شیڈنگ کی برک ت۔۔۔۔۔ اس عنوان کے تحت لوڈ شیڈنگ سے‬ ‫پیدا ہونے والی خرابیوں ک ذکر کی گی ہے۔ اس موضوع کے‬ ‫لیے اور بھی عنوان ہو سکتے تھے لیکن جو طنز اس عنوان‬ ‫میں پوشیدہ ہے وہ ش ید کسی اور عنوان میں نہیں ہو سکت تھ ۔‬


‫رشوت زندگی ک اہ ترین موضوع ہے۔ یہ ایک ایک ایس ن سور‬ ‫ہے جو م شرے میں اس طرح سرایت کر گی ہے کہ ا کوئی‬ ‫کہے کہ یہ خت ہو سکت ہے تو ش ید یقین ہی نہ آئے۔ مسٹر اردو‬ ‫اس ک ایک حل تجویز کرتے ہیں کہ اس کو طال ہو سکتی ہے۔‬ ‫ب الئی ک ریٹ طے کر دی ج ئے گوی اسے ب ق عدہ عم ی صورت‬ ‫دے دی ج ئے۔ اس مضمون ک عنوان ۔۔۔۔۔ رشوت کو طال ہو‬ ‫سکتی ہے ۔۔۔۔۔ رکھ گی ہے۔‬ ‫اس طرح مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر ک عنوان۔۔۔۔۔ جر کو‬ ‫ق نونی حیثیت دین ن انص فی نہیں۔۔۔۔۔ درج کی ہے۔ یہ گوی‬ ‫ن انص فی کی طنزیہ ت ئید ہے۔ وہ سچ کے ب رے میں پش ور ہ ئی‬ ‫کورٹ ک حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اگر ہ سچ بولنے لگیں‬ ‫تو ہم رے اسی فی صد مس ئل حل ہو ج ئیں گے۔ پھر مسڑ اردو‬ ‫جھوٹ کی طنزیہ ت ئید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چور کو ح‬ ‫ح صل ہے کہ وہ اپن وکیل کرے۔ اسی طرح وکیل ک فرض ہے کہ‬ ‫وہ پورا زور لگ کر اسے بےگن ہ اور م صو ث بت کرے۔ یہ ہی‬ ‫اس کے پیشہ کی ام نت اور دی نت داری ہے۔ وکیل ایسے ایسے‬ ‫دالئل دے کہ چور کو بھی اپنے بےگن ہ ہونے ک یقین آ ج ئے۔‬ ‫وکیل مقدمہ ہ ر ج ئے تو اس سے اس کی ہی نہیں اس کے‬ ‫پیشے کی بھی بدن می ہوتی ہے۔ اس طرح ہر آدمی اپنے جھوٹ‬ ‫کے لیے جواز پیدا کر لیت ہے۔ اس حوالہ جر کو ق نونی حیثیت‬ ‫سے محرو رکھن ن انص فی کے زمرے میں آت ہے۔ اسے ق نونی‬ ‫حیثیت م نے سے جر ہمیشہ کے لیے خت ہو ج ئے گ ۔‬


‫رمض ن کے مہینے میں رحمتوں پر نظر ہونی چ ہیے۔ رمض ن‬ ‫کے مہینے میں ہر قس کی چیزوں ک نرخ بڑھ ج ت ہے۔ عالج‬ ‫م لجے اور م لج کے نرخ بھی بڑھ ج تے ہیں۔ مسٹر اردو اس‬ ‫ک عالج یہ بت تے ہیں کہ نمک سے روزہ کھول لی ج ئے۔ گھروں‬ ‫میں ن کے لگوا لیے ج ئیں ت کہ بج ی کے آنے ج نے شک یت ہی‬ ‫نہ رہے۔ ردی اور خرا کھجوریں جو ک قیمت میں م تی ہیں‬ ‫سے روزہ افط ر کر لی ج ئے۔ یہ رحمتوں اور برکتوں ک مہینہ‬ ‫ہے۔‬ ‫ایک پروفیسر کی ص ت بہت اچھے انداز سے کرتے ہیں۔‬ ‫وہ م وم ت فراہ کرت ہے۔ ‪1‬‬ ‫وہ سوچت اوراس ک اظہ ر بھی کرت ہے۔ ‪2‬‬ ‫وہ غ ط صحیح بت ت اور اس کی تمیز سکھ ت ہے۔ ‪3‬‬ ‫اس تحریر کو پڑھ کر جہ ں ایک پروفیسر کی م شرے کو فراہ‬ ‫کی گئی ع می م وم ت اور اہمیت ک پتہ چ ت ہے وہ ں اس امر ک‬ ‫بھی ادراک ہوت ہے کہ است د کے فرائض کی ہیں۔‬ ‫مسٹر اردو نے گڑ کی پیسی سے ایک نی خی ل پیش کی ہے۔‬ ‫پہ ے ہ یہ سنتے آئے ہیں کہ جہ ں بندروں کی ت داد زی دہ ہوتی‬ ‫ہے اور لوگ ان کی شرارتوں سے تنگ آ ج تے ہیں۔ ہندو مذہ‬ ‫میں ان کے احترا کے ب عث انہیں م ر پیٹ بھی نہیں سکتے‬ ‫تھے تو وہ ں لوگ گڑ کی بڑی پیسی بن تے پھر اسے خشک‬


‫کرتے اور اس کو جنگل میں رکھ دیتے اور اس کے س تھ ہی دو‬ ‫ی ڈھ ئی فٹ کے دس ب رہ ڈنڈے رکھ دیتے۔ بندروں کی ٹولی آتی‬ ‫اور وہ گڑ کی پیسی کے اردگرد ح قہ بن کر بیٹھ ج تے۔ بس اسے‬ ‫دیکھتے رہتے اور کوئی بندر اسے کھ نے ی اٹھ نے کی جرآت‬ ‫نہ کرت ۔ اگر کوئی ج نے کی کوشش کرت تو دوسرے بندر پ س‬ ‫پڑے ڈنڈوں سے اس کی خو مرمت کرتے۔ بندر اس ک میں‬ ‫مصروف ہو ج تے تو لوگ ان بندروں کے اس کھیل سے لطف‬ ‫اندوز ہوتے۔ مسٹر اردو نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کی ہے کہ‬ ‫ط قتور لوگ م کی وس ئل کو گڑ کی پیسی سمجھ کر چوس رہے‬ ‫ہیں۔ نتیجہ کے طور ان کے دانت خرا ہو ج ئیں گے۔ انہیں‬ ‫نتیجے کی فکر تک نہیں ہے۔ بہرح ل م م ے کو پیش کرنے ک‬ ‫یہ انداز ب لکل نی ہے۔‬ ‫مسٹر اردو ہم رے سی سی لیڈروں کی چھوٹی اور ذاتی ف ئدے پر‬ ‫مبنی سوچ پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بغداد میں حالل‬ ‫ی حرا پر بحثیں چل رہی تھیں ادھر ہالکو خ ں نے بغداد کی اینٹ‬ ‫سے اینٹ بج دی۔ اسی طرح ہم رے لیڈر اگ ے الیکشن میں جیت‬ ‫ج نے کے لیے عوا کی بھوک میں اض فہ کرنے کی فکر میں‬ ‫ہیں ادھر امریکہ ہم ری خود داری کی اینٹ سے اینٹ بج نے کی‬ ‫فکر میں ہے۔‬ ‫ایک شخص کی بروقت طبی سہولت نہ میسر آنے کی صورت‬ ‫میں موت واقع ہو گئی جس کے سب ایک ش دی واال گھر م ت‬ ‫کدہ بن گی ۔ مسٹر اردو کے نزدیک یہ بھی دہشت گردی ہے کہ‬


‫ڈاکٹر اپنی صحیح ڈیوٹی انج نہ دیں۔ ادوی ت ج ی ہوں۔ فص وں‬ ‫کے سپرے ج ی ہوں تو مسٹر اردو مہ منشی ۔۔۔۔ چیف‬ ‫سیکرٹری۔۔۔۔'جیون دان منشی ۔۔۔۔ سیکرٹری صحت۔۔۔۔ اع ی شکش‬ ‫منشی۔۔۔۔سیکرٹری ہ ئرایجوکیشن' منشی ب دی ت ۔۔۔۔۔ سیکرٹری‬ ‫ب دی ت ۔۔۔۔ کو بھی اس ک ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور یہ حقیقت بھی‬ ‫ہے کہ تم محکمے ذمہ دار ہیں۔ ان کے صوب ئی سربراہ بھی‬ ‫ذمہ دار ہیں۔‬ ‫لوگوں کے قول و ف ل میں تض د اور خودنم ئی ک تذکرہ بھی ایک‬ ‫مث ل دے کر مسٹر اردو کرتے ہیں کہ ایک مسجد کی ت میر کے‬ ‫لیے چندہ جمع کی ج نے لگ ۔ ایک ص ح نے پچ س ہزار ک‬ ‫اعالن کر دی ۔ ج دوسرے دن اس سے ط کیے گیے تو اس‬ ‫نے کہ کہ چندہ دین بھی تھ ۔ میں نے سمجھ بس لکھوان ہی‬ ‫تھ ۔ یہ ب ت ع مش ہدے میں ہے کہ چندہ لکھوانے کے ب د اتنے‬ ‫چکر لگوائے ج تے ہیں کہ چندہ م نگنے والے تنگ آ کر چندہ‬ ‫م نگن ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بہت سے سم جی موضوع ت پر مسٹر‬ ‫اردو نے اچھی اور موزوں ب ت کی ہے اور بڑے فن ک رانہ انداز‬ ‫میں طنز کی ہے‪ .‬اکثر اوق ت بین السطور طنز کی ہے کہ طنز ک‬ ‫گم ن تک نہیں گزرت بل کہ ق ری اسے حقیقت سمجھنے لگت ہے۔‬ ‫عوامی نم ئندوں ک اپن ووٹ ذاتی م د کی خ طر اپنی پ رٹی کے‬ ‫خالف دینے کی بڑے ہی اچھوتے انداز میں لوٹے کی سم جی‬ ‫حیثیت کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ ان کی طنزیہ تحریروں‬ ‫میں ظرافت اور سنجیدگی ک خو صورت امتزاج ہے۔ وہ بڑے‬


‫من رد اور اچھوتے انداز میں انس نی ن ہمواریوں ک خ کہ اڑاتے‬ ‫ہیں۔ زندگی اور سم ج کی کمزوریوں' مریض نہ کی یتوں کو‬ ‫بےنق کرتے ہوئے ہدف طنز بن تے ہیں۔ زب ن میں لط فت اور‬ ‫فکر میں مش ہدے کی گہرائی ان کے موضوع ت میں دوا پیدا‬ ‫کرتی ہے۔ ان طنزیہ تحریروں میں ت خی اس وقت پیدا ہوتی ہے‬ ‫ج وہ من فقت دہرے م ی رات پر انس نوں کے پ ریکھ بن کر‬ ‫س منے آتے ہیں لیکن کم ل یہ کہ تحریر ک حسن اور مزاح ک‬ ‫حسن برقرار رہت ہے۔‬ ‫ان کے طنز و مزاح ک رخ ع ل گیر ن ہمواریوں پر ک اور ہنگ می‬ ‫ح الت پر زی دہ ہوت ہے۔ ایسے ح الت جو خ ص طور پر اثرانداز‬ ‫ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ ں وہ اس م شرے کی سچ ئیوں کو اس‬ ‫س یقے سے بی ن کرتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر بے اختی ر ہنسی‬ ‫آج تی ہے ی پھر جیسے تنہ ئی میں آئینہ دیکھ لی ہو۔‬ ‫مسٹر اردو کی ایک تحریر کے اقتب س سے خت کرت ہوں۔‬ ‫جگہ' ق نون' لوگ اور حکومتیں کسی بھی ری ستی وجود کے‬ ‫لیے ضروری ہیں۔ ان کے بغیر ری ست وجود میں نہیں آ سکتی۔‬ ‫ان میں سے ایک عنصربھی ک ہو تو ری ست وجود میں نہیں آ‬ ‫سکتی۔ ۔۔۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔۔ حکومتی ایوانوں میں اگر لوٹے نہ ہوں‬ ‫تو م زز ممبران سوس ئٹی میں پھریں گے۔ اس سے ن صرف‬ ‫حسن کو گرہن لگے گ بل کہ بدبو بھی پھی ے گی۔ لبڑی پینٹوں‬ ‫ش واروں والے ممبران کی کون عزت کرے گ ۔‬


‫الغرض مسٹر اردو اہ اور سنجیدہ موضوع ت پر طنز و مزاح پر‬ ‫مبنی تحریر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں اور اگر یہ کہ ج ئے وہ‬ ‫صرف لس نی ت کے ہی طنزیہ اس و تک کے بھی شہ سوار‬ ‫ہیں' تو مب لغہ نہ ہو گ ۔‬ ‫‪............‬‬ ‫مسٹر اردو کی مختصر نظمیں بھی کم ل ہیں۔ ج ق ری انہیں‬ ‫پڑھت ہے تو اسے گم ن گزرت ہے کہ وہ اس قس کی نظمیں لکھ‬ ‫سکے گ ۔ لیکن عم ی صورت میں اسے ن ک می ک س من کرن‬ ‫پڑے گ ۔ گوی یہ نظمیں سہل ممتنع ک نمونہ ہیں۔ ان میں‬ ‫م شرے میں پ ئے والے تض دات اور اخالقی قدروں کی پ م لی‬ ‫ک بہترین انداز میں ذکر کی گی ہے۔ مثال ان کی یہ نظ مالحظہ‬ ‫ہو۔‬ ‫سن ہے‬ ‫یوسف کی قیمت‬ ‫سوت کی انٹی لگی تھی‬ ‫عصر ح ضر ک مرد آزاد‬ ‫دھویں کے عوض‬ ‫ضمیر اپن بیچ دیت ہے‬


‫حکمرانوں کے جبر و استبداد کے ہ تھوں کے ج ق ک روں‬ ‫اورصح فیوں کے سچ لکھنے پر پہرے ہوں اور انہیں جھوٹ‬ ‫لکھنے پر مجبور کی ج رہ ہو تو اس کو بہت ہی من رد انداز‬ ‫میں انہوں نے اس نظ میں تحریر کی ہے۔‬ ‫زہر کو تری‬

‫تمہیں کہن ہو گ‬

‫میر س ر نے‬ ‫بہبود کے ن پر‬ ‫زب ن تیری‬ ‫بربک کے ہ تھ‬ ‫گروی رکھ دی ہے‬ ‫ایک ف رسی مقولہ ہے‪:‬‬ ‫کند ہ جنس ب ہ جنس پرواز کبوتر ب کبوتر ب ز ب ب ز‬ ‫اس مقولے کے م ہو کو مسٹر اردو ایک اور انداز میں پیش‬ ‫کرتے ہیں کہ جن سینوں میں پتھر ہے وہ ل ل و گوہر سے محبت‬ ‫کرتے ہیں۔ ل ل و گوہر بھی پتھر ہیں لیکن گراں قیمت ہیں۔‬


‫گوی پتھر' پتھر کو ہی محبو بن ئے گ ۔‬ ‫پتھر سینے میں‬ ‫ل ل و گوہر‬ ‫محبو‬ ‫پتھر ک پتھر‬ ‫زندگی کی مشکالت اور مرنے کے خوف کو مسٹر اردو ایک نئے‬ ‫انداز سے پیش کرتے ہیں۔ انس ن کی بےبسی ک منظر ایک مث ل‬ ‫کے ذری ے بی ن کرتے ہیں۔‬ ‫ذرا یہ نظ مالحظہ ہو ‪:‬‬ ‫جین مشکل‬ ‫مرن آس ن نہیں‬ ‫زندگی‬ ‫س نپ کے منہ میں‬ ‫چھپک ی ہو جیسے‬


‫سچ ئی کی عظمت اور سچ ئی کے ع برداروں ک ذکر کرتے‬ ‫ہوئے جھوٹ بولنے والوں سے پورے اعتم د سے مخ ط ہوتے‬ ‫ہیں اور انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہ رے جھوٹے‬ ‫وعدوں سے سچ ئی ی سچ ئی کے ع برداروں کو کوئی فر‬ ‫نہیں پڑے گ کیوں کہ وہ سچ ئی ک سورج ہیں اور سورج کی‬ ‫گردش میں فر نہیں آت ۔‬ ‫جھوٹے وعدے کرنے والو‬ ‫سن لو‬ ‫کربال کے مس فر‬ ‫ذات میں اپنی‬ ‫سچ ئی ک سورج ہیں‬ ‫اد اپنے عہد ک آئینہ دار ہوت ہےاور ہرادی پر یہ ذمہ داری‬ ‫ع ئد ہوتی ہے کہ وہ کھ ی آنکھوں اور ش وری توازن کے س تھ‬ ‫اپنے عہد کے س تھ اپنے عہد کے مس ئل کو بت ئے۔ ان ک عہد‬ ‫جس آگ میں س گ رہ ہے اس کی المیہ کہ نی بی ن کرے۔ مسٹر‬ ‫اردو نے یہ ح زندہ اور روشن احس س کے س تھ خو نبھ ی‬


‫ہے۔ سرم یہ داروں کے استحص لی رویے کو جس بےداری اور‬ ‫ش ن دار اس و میں پیش کی ہے وہ انہیں ایک ترقی پسند فن‬ ‫ک ر ک درجہ عط کرت ہے۔ مزدوروں کی مزدوری ک سرم یہ‬ ‫داروں نے استحص ل کی ہے اور اپنی اج رہ داری ق ئ کی ہے۔‬ ‫کہتے ہیں‬ ‫قیدیوں کو اس وعدہ پر رہ کر دو‬ ‫فصل پر وہ‬ ‫زمین پر ہ‬ ‫م کیت ک دعوی نہیں کریں گے‬ ‫تصوف ک بی ن بھی مسٹر اردو اپنی نظموں میں نہ یت احسن‬ ‫طریقے سے کرتے ہیں۔ هللا جل جاللہ کی عظمت اور اپنی ک‬ ‫م ئیگی ک تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تیری شن خت‬ ‫ہوں۔ جیس کہ حدیث قدسی میں ہے کہ هللا جل جاللہ فرم ت ہے کہ‬ ‫میں چھپ ہوا خزانہ تھ میں نے چ ہ کہ پہچ ن ج ؤں پھر میں‬ ‫نے محمد ص ی هللا ع یہ‬ ‫وس کو پیدا فرم ی ۔ اس ذیل میں ذرا یہ نظ مالحظہ ہو ‪:‬‬


‫کیسے میں ت کو سوچ سکوں گ‬ ‫ت وہ ں جہ ں میں نہیں‬ ‫میں زمین تو آسم ن‬ ‫ہ ں یہ تش ی ہے‬ ‫میں تیری شن خت ہوں‬ ‫تو مرے ہونے ک ثبوت‬ ‫ا میں تجھے‬ ‫تیری اج زت سے سوچت ہوں‬ ‫الغرض مسٹر اردو نے اپنی نظموں میں زندگی کے ہر موضوع‬ ‫کو کچھ اس طرح سے اپنی گرفت میں لی ہے کہ ق ری کو اپنے‬ ‫دل کی آواز لگتی ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫مسٹر اردو نے اردو ہ ئیکو بھی تحریر کیے ہیں۔ ان میں بھی‬ ‫انس ن ک دکھ سکھ پہ ی ترجیع پر ہے۔ اپنے محبو کی بےنی زی‬ ‫اور اس کی محبت میں بےچینی اور بےبسی ک ذکر س دہ اور‬ ‫آس ن ل ظوں میں کرتے ہیں۔ یوں م و ہوت ہے کہ کوزے میں‬ ‫دری بند کر دی گی ہے۔‬


‫ی د میں ان کی ش بھر تڑپ‬ ‫محبت کو وہ‬ ‫دم‬

‫ک بخ ر کہتے ہیں‬

‫محبت کے اظہ ر ک انداز بھی نرالہ ہے۔ بین السطور بہت سے‬ ‫درد اور راز لکھ ج تے ہیں۔ محبت کو ظ ہر بھی ہونے نہیں‬ ‫دیتے۔‬ ‫نیند روٹھ گئی ہے‬ ‫آنکھوں میں ش ید‬ ‫بس گی ہے کوئی‬ ‫قرآن مجید کے مط ب رج ء وہ ہے کہ آدمی درست سمت میں‬ ‫درست کوشش کرے پھر اس کی ک می بی کی هللا ت لی جل جاللہ‬ ‫سے امید کرے۔ آرزو وہ ہے کہ ج بندہ غ ط سمت میں غ ط‬ ‫کوشش کرے اور پھر بھالئی کی امید رکھے۔ غ ط آرزو کرن منع‬ ‫ہے۔ یہ بھی خ آرزو ہے کہ بندہ سرے سے کوشش ہی نہ کرے‬ ‫اور ک می بی کی امید ب ندھے۔ اس م م ے کو مسٹر اردو نے‬


‫نہ یت اچھوتے انداز میں بی ن کی ہے۔‬ ‫بھیک کے ٹکڑے پیٹ میں ات ر کر‬ ‫میرا ب پ غیرت ایم نی‬ ‫تالش رہ تھ مجھ میں‬ ‫ج محبت چھپ ئے نہ چھپے اور محبو کی جگ ہنس ئی ہو۔ اس‬ ‫پر بہت ہی فن ک رانہ انداز میں م ذرت کرتے ہیں۔‬ ‫میں نے رسوا کی ہے ت کو‬ ‫میں تو چپ کے حص ر میں تھ‬ ‫یہ شرارت تو آنکھوں کی ہے‬ ‫آدمی سے غیرت اور حمیت کس طرح رخصت ہو ج تی ہے۔ ج‬ ‫وہ ضرورت مند بن کر کسی کے آگے ہ تھ پھیالت ہے پھر اسے‬ ‫اندازہ ہی نہیں ہوت کہ ج وہ پہ ے کی زندگی گزار رہ تھ تو‬ ‫کیس انس ن تھ اور ا کس طرح ک آدمی ہے۔ اس کو ایک ش عر‬ ‫ہی بہتر طریقے سے محسوس کر سکت ہے۔‬


‫کشکول گدائی تھ منے سے پہ ے‬ ‫وہ زندگی کی ب ہوں میں تھ‬ ‫ا چ ت پھرت ویرانہ ہے‬ ‫ج کوئی محبو کی اداؤں ک شک ر ہو ج ت ہے اور اس ک‬ ‫محبو اس سے اس ک دل چرا کر لے ج ت ہے اور وہ کچھ بھی‬ ‫نہیں کر پ ت ۔ اس وقت کے ت ج اور حیرت کے منظر کو مسٹر‬ ‫اردو یوں ق بند کرتے ہیں۔‬ ‫عج چور تھ وہ بھی‬ ‫ج گتے میں لے گی‬ ‫چرا کر لے دل میرا‬ ‫ج آدمی بھوک سے دوچ ر ہو اور ایک ایک لقمے کو ترسے‬ ‫تو وہ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کر سکت ہے۔ ذلت کی کسی‬ ‫سطع تک بھی ج سکت ہے۔ ب غیرت مر ج تے ہیں دست سوال‬ ‫دراز نہی کرتے اور ن ہی من ی رستہ اختی ر کرتے ہیں۔ پہ ی قس‬ ‫کے لوگوں سے کسی قس کی امید نہیں کی ج سکتی۔ اسی تن ظر‬


‫میں مسٹر ‪ :‬اردو نے کہ ہے‬ ‫اک لقمہ ہو جس کی قیمت‬ ‫ت ہی کہو وہ سست انس ن‬ ‫سوچوں پر جھنڈے گ کی‬ ‫مس م نوں کی عظمت رفتہ ک ذکر بھی اپنے انداز میں کرتے ہیں۔‬ ‫حیضرت عمر نے جو خط دری ئے نیل کو لکھ تھ اس کے حوالہ‬ ‫عصری جبر کے تدارک کو موضوع گ ت گو بن تے ہیں۔ کہتے‬ ‫ہ یں‬ ‫فرات جبر‬ ‫جوش میں ہے‬ ‫آؤ عمر ک خط تالش کریں‬ ‫خودی بیچنے والوں کی ج دنی میں قدر کی ج رہی ہو اور‬ ‫خودی کے پ سب نوں کے س تھ دنی بےرخی اور بے اعتن ئی برت‬ ‫رہی ہو' تو دنی وی ج ہ و جالل کے دلدادہ خودی کی کی قدر کریں‬


‫گے۔ ایسے لوگ خودی کے دا وصول کرتے رہتے ہیں۔ اس‬ ‫م م ے کو مسٹر اردو نے یوں بی ن کی ہے۔‬ ‫میرے شہر ک دستورہے‬ ‫خودی بیچنے والے‬ ‫بڑا ن پ تے ہیں‬ ‫مسٹر اردو نئی نسل سے بڑے پرامید ہیں اور توقع رکھتے ہیں‬ ‫آتی نسل جبر و استبداد ک خ تمہ کر دے گی۔ کہتے ہیں‬ ‫ہ ن ک رہے ہیں لیکن‬ ‫ہم ری نسل‬ ‫ارضی خداؤں کی قبریں کھودے گی‬ ‫زم نے کے چ ن کے مط ب جو بےوف ئی رواج پ گئی ہے اور‬ ‫لوگ جس طرح احس ن فراموش ہو گیے ہیں۔ اپنے محسن ک‬ ‫شکریہ ادا کرنے کی بج ئے اس ک ہی گال ک ٹنے ک جتن کرتے‬ ‫ہیں۔ اس م م ے کو مسٹر اردو نے کچھ یوں بی ن کی ہے۔‬


‫میں نے جس شخص کی خ طر‬ ‫دشت تنہ ئی میں عمر گزار دی‬ ‫وہ مرا ہی سر ک ٹنے کی فکر میں تھ‬ ‫اس خی ل کو کسی اور ش عر نے اس طرح بی ن کی ہے ‪:‬‬ ‫جس دی خ طر کن پڑوائے اپنے ح ل وگ ڑے نے‬ ‫اوہنے س نوں پ گل کہہ کے پہالں روڑے م رے نے‬ ‫مسٹر اردو محبو کی بےوف ئی ک گ ہ نہیں کرتے بل کہ اس کی‬ ‫بےوف ئی ک سب اپنی ہی درم ندی کو قرار دیتے ہیں اور اس کی‬ ‫بےوف ئی کو بھولنے اور اس کو م ف کرنے ک حوص ہ رکھتے‬ ‫ہ ی ں۔‬ ‫کہتے ہیں‬ ‫ج ؤ تمہیں بھی م ف کی‬ ‫درم ندہ لوگوں سے‬ ‫کون نبھ کرت ہے‬ ‫‪..........‬‬


‫مسٹر اردو کی نظ ہو کہ نثر' اس میں عصری جبریت کو واضح‬ ‫اور کھ ے ال ظ میں بی ن کی گی ہے۔ ایک ہی لہجہ ایک طور‬ ‫دونوں میں م ت ہے۔ ان کی نظ اور نثر ع فہ ' واضح' س دہ‬ ‫اور متنوع موضوع ت پر محیط ہے۔ ق ری کسی سطع پر بوریت‬ ‫ک شک ر نہیں ہوت بل کہ بال تک ن اول ت آخر پڑھ ج ت ہے۔ ان کی‬ ‫تحریروں میں وحدت ث ثر بنی دی اور اہ ترین عنصر ہے۔‬



Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.