ردیف ف غزل نمبر 103 147
)(147نامہ
بھی لکھتے ہو تو بہ خطِ غبار حیف
رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش مجبور یاں تلک ہوۓ اے اختیار حیف تھی میرے ہی جلنے کو اے آہ شعلہ ریز گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار حیف بیش از نفس بتاں کے کرم نے وفا نہ کی تھا محملِ نگاہ بہ دوشِ شرار حیف ہیں میری مشتِ خاک سے اُس کو کدورتیں پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار حیف بنتا اسد میں سرمۂ چشمِ رکابِ یار آیا نہ میری خاک پہ وہ شہسوار حیف
غزل نمبر 104 )(148عیسئیِ 147
148
مہرباں ہے شفا ریز یک طرف
147۔ چھ اشعار کی اس غزل سے متعلق دو باتیں قابل ذکر ہیں :مفتی انوار الحق کے نسخے میں تیسرا اور چوتھا شعر
ب اشعار وہی ہے جو یہاں دی گئی ہے۔ اسی غزل کے حاشیے پر ذیل کے دو شعر باہم بدل گئے ہیں ،مگر قلمی دیوان میں ترتی ِ موٹے قلم سے شکستہ خط میں بڑھاۓ گئے ہیں: گل چہرہ ہے کسی خفقانی مزاج کا گھبرا رہی ہے بیمِ خزاں سے بہار حیف جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے اے ناتمامئیِ نفسِ شعلہ بار حیف 148
148۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں ذیل کا شعر درج ہے:
ت دل و جگر خاشِ غمزہ ہاۓ ناز مف ِ کاوش فروشئ مژۂ تیز یک طرف