مقصود حسنی کی نو ریشمی تحریریں

Page 1

‫مقصود حسنی‬ ‫کی‬ ‫نو ریشمی تحریریں‬ ‫مرت ‪:‬‬ ‫پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جون‬


‫فہرست‬ ‫پہ ے روز کی طرح‬ ‫ٹھرکی ب ب‬ ‫کرنسی ثبوت‬ ‫ٹیڑھی دیوار‬ ‫ش ہی ہ تھی‬ ‫چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ‬ ‫ا صرف‬ ‫بڑوں ک ظرف بڑا‬ ‫لط ئف‬


‫پہ ے روز کی طرح‬

‫موت ایک اٹل ٹھوس اور ن ق بل فرار حقیقت ہے۔ بڑے بڑے پھنے خ ن‬ ‫لد گئے۔ وہ سمجھتے تھے‘ زندگی کی گ ڑی ان ہی کے د سے چل رہی‬ ‫ہے۔ وہ نہ رہے تو زندگی ک س را کھیل ٹھپ ہو کر رہ ج ئے گ ۔ بہت‬ ‫کچھ پ س ہوتے‘ مزید کی ہوس ت مرگ ان کے س تھ س تھ رہی۔ مزید کی‬ ‫حصولی کے لیے‘ انس نی اور اخالقی اقدار کو پ ؤں ت ے روندتے رہے۔‬ ‫وہ یہ بھول گئے کہ ج تے ہوئے س تھ کچھ بھی نہ لے ج سکیں گے۔‬ ‫یہ ہی نہیں‘ قبر تک اپنے قدموں پر نہ ج سکیں گے۔ گھر والے‘ پی ر و‬ ‫محبت کے دعوےدار اور جی حضوریے‘ یوں آنکھیں پھیر لیں گے‘‬ ‫جیسے ان ک اس سے کوئی ت واسطہ ہی نہ رہ ہو۔ ہر کوئی ج دیوں‬ ‫میں ہو گ ۔ منہ میں ۔۔۔ بڑا افسوس ہوا ۔۔۔ ج کہ من میں اس کے لیے‬ ‫رائی بھر دل چسپی‘ پی ر محبت‘ ہ دردی‘ دکھ‘ صدمہ ی پھر کسی بھی‬ ‫سطع ک افسوس نہ ہوگ ۔‬ ‫جن زے کے س تھ آئے کچھ سوچ رہے ہوں گے‘ ک بخت نے آج ہی‬ ‫مرن تھ ‘ اس کی وجہ سے فالں ک نہ ہو سکے ی التوا میں پڑ ج ئے‬ ‫گ ۔ انہیں ی د تک نہ ہو گ ‘ ایک روز وہ بھی اسی طرف چ رپ ئی پر ڈال‬ ‫کر قبر کی طرف الی ج ئے گ ۔ اپنے پرائے اسے بےی ر و مددگ ر چھوڑ‬ ‫کر‘ اس کے افسوس میں پک ئے گئے مص لحے دار پکوان کی طرف‬ ‫لوٹ ج ئیں گے۔ بوٹیوں پر یوں ٹوٹ پڑیں گے‘ جیسے صدیوں کی‬ ‫بھوک م دہ میں رکھتے ہؤں۔ لیگ پیس نہ م نے پر‘ روسے بھی ہو‬


‫گے۔ ان میں وہ نہیں ہے‘ ان میں سے کسی کو ی د نہ رہے گ ۔ کھ پی‬ ‫کر‘ گھر والوں کو بڑا ہی افسوس ہوا کہہ کر اپنی اپنی دنی میں کھو‬ ‫ج ئیں گے۔ وہ محض گزرا کل ہو کر رہ ج ئے گ ۔ وہ سننے میں آی ہے‘‬ ‫کی بسی ک ب سی ہو ج ئے اور پھر سننے میں آی ہے بھی‘ فن کی‬ ‫بستی میں ہمیشہ کے لیے گ ہو ج ئے گ ۔‬ ‫ج تک س نس لیتی رہی‘ گڈو ک بھی یہ ہی طور رہ ۔ وہ سمجھتی تھی‬ ‫کہ کھیسہ پر ہو تو عی ی خرابی کی طرف کوئی نہیں ج ت ۔ ہر کوئی‬ ‫ہونے کو سال بالت ہے۔ یہ ہی نہیں‘ اس کے ہنر اور خوبی ں گنوات‬ ‫ہے۔ ہر ص ح کھیسہ کے لیے اس کے گھر اور من ک دروازہ ت وقت‬ ‫ق ئمی کھیسہ کھال رہت ہے۔‬ ‫شروع شروع میں اردگرد کے لوگوں نے ب تیں بھی بن ئیں لیکن گڈو کی‬ ‫دوگز زب ن اور ب حیثیت حضرات سے ہی و ہ ئے ہونے کے سب ‘ کوئی‬ ‫کسکت تک نہ تھ ۔ یہ ں تک کہ اس ک ذاتی خ وند جیال بٹیر بھی زب ن نہ‬ ‫کھولت تھ ۔ وہ ج نت تھ کہ اس کے س تھ گ ی کے کتے سے بھی بڑھ‬ ‫کر بری ہو گی۔ گڈو نے ان گنت جیبیں ویران کیں۔ کٹی نے کوٹھی ک‬ ‫روپ دھ ر لی ۔ کچن دیکھنے الئ کر دی ۔ لب س اور سواری کی اپنی ہی‬ ‫ش ن ہو گئی۔ کسی کو ی د تک نہ رہ کہ گڈو کی کرتی رہی ہے۔ ص ح‬ ‫ثروت اور بڑے ن موں والے بالتک ف اور اپن ٹھک نہ سمجھ کر آتے‬ ‫تھے۔ ا وہ بکری نہیں‘ بکریوں کی میٹ تھی۔‬ ‫جیال بٹیر اس کی زندگی میں چودھری ص ح تھ ۔ لوگ اس کو سال‬ ‫بالنے میں پہل کرتے تھے۔ وہ جوا میں سر کو محض ہ کی سی‬ ‫جنبش دیت تھ ۔ گڈو کی اٹھی‘ اس کی گھر میں تو پہ ے بھی عزت نہ‬ ‫تھی ہ ں ب ہر بڑا وجکرا اور ٹہک تھ ۔ لوگ اسے نہیں اس کے لب س‬ ‫اور سواری کو سال بالتے تھے۔ ا سواری تھی نہ لب س‘ فقیروں‬


‫سے بدتر زندگی کر رہ تھ ۔ ص ح اوالد تھ ۔ سوائے چھوٹے لڑکے‬ ‫کے ہر کوئی اسے جوتے کی نوک پر رکھت تھ ۔ وہ گھر میں مالزموں‬ ‫کی سی زندگی بسر کر رہ تھ ۔ چھوٹ لڑک جو ابھی کنوارہ تھ ‘ چوری‬ ‫چھپے اس کی ہ کی پھ کی خدمت کرت تھ ۔ ورنہ دوسرے تو اسے‬ ‫سودا س ف النے اور بچوں کو سکول سے النے لے ج نے والی مشین‬ ‫سمجھتے تھے۔ شروع شروع میں لوگ اسے جیال کنجر کہتے تھے ا‬ ‫اس کی ح لت زار دیکھ کر ترس س کھ نے لگے تھے۔ پھر کبھی‬ ‫کھ نے کی کوئی چیز ی ایک آدھ سگریٹ بھی دینے لگے۔‬ ‫اگرچہ یہ کرنی ک بھگت ن تھ لیکن ترس کھ ن بھی ص ح دل کی فطرت‬ ‫میں داخل ہے۔ میں بھی اکثر سوچت کہ یہ برائی سے کن رہ کش ہو ج ت‬ ‫تو آج اس کڑی سزا سے بچ ج ت ۔ الگ ہو ج ن اس کے بس میں تھ ۔‬ ‫اس نے کیوں برائی ک س تھ دی ۔ برائی ک انج برا ہی ٹھہرا ہے۔‬ ‫گڈو کے آخری دن بھی سسکیوں میں گزرے تھے۔ اس کو کی بیم ری‬ ‫الح تھی مرتے د تک تشخیص میں نہ آ سکی تھی۔ بکریوں ک آج‬ ‫بھی وہ ں آن ج ن لگ رہت ہے۔ ا یہ ک مرحومہ کی بڑی بیٹی بڑی‬ ‫خوبی سے انج دے رہی ہے۔‬ ‫مجھے بھی جی ے کی اس ح لت زار پر ترس آت ۔ مجھے م و ہوا کہ‬ ‫اس ک چھوٹ لڑک ب پ سے ہ دردی ک جذبہ رکھت ہے۔ ایک دن وہ‬ ‫مجھے اکی ے مل گی ۔ میں نے اسے بال لی اور ب پ ک خی ل رکھنے کو‬ ‫کہ ۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ مجھے یقین ہو گی کہ یہ ب پ سے ہ‬ ‫دردی ہی نہیں‘ محبت بھی رکھت ہے۔ میں نے سوچ کیوں نہ اسے ان‬ ‫کے م حول کے مط ب ب ت سمجھ نے ک چ رہ کروں۔‬ ‫میں نے کہ ‪ :‬تمہ را ب پ اکی ے زندگی کر رہ ہے اس کے لیے کچھ‬


‫کرو۔‬ ‫اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہ ‪ :‬بت ئیے‬ ‫میں ان کے لیے کی کروں۔ بس میں ہوا تو ضرور کروں گ ۔‬ ‫میں نے کہ ‪ :‬تمہ را ب پ بوڑھ ہو گی ہے ا وہ کسی ق بل نہیں رہ ۔ ا‬ ‫تمہیں کچھ کرن پڑے گ ۔‬ ‫اس نے کہ ‪ :‬یہ ہی تو پوچھ رہ ہوں کی کروں‘ کرن کی ہے۔‬ ‫کوئی شریف اور اچھی سی لڑکی پھنس ؤ اور ب پ کے س تھ سیٹ کرکے‬ ‫اس ک نک ح کروا دو۔‬ ‫یہ سنتے ہی‘ اس ک چہرا الل پیال ہو گی ۔ اس نے آؤ دیکھ نہ ت ؤ‘‬ ‫میرے منہ پر بڑا ہی کرارا تھپڑ جڑ دی اور چال گی ۔ ا ج بھی مجھے‬ ‫دیکھت ہے‘ گھور کر دیکھت ہے۔ میں تھپڑ تو تقریب بھول گی ہوں‘ ہ ں‬ ‫یہ سوچ مجھے گھیراؤ کیے رکھتی ہے کہ‬ ‫اگر یہ اس قم ش ک نہیں تو ان س سے الگ کیوں نہیں ہو ج ت ۔‬ ‫ممکن ہے اپنی محبوبہ دینے ک مشورہ اسے زہر لگ ہو۔ ایس بھی‬ ‫ممکن ہے‘ وہ ں رکنے میں اس کی کوئی مجبوری ہو اور یہ ہی صورت‬ ‫ح ل اس کے ب پ کے س تھ بھی رہی ہو۔ اس ب ت کو کئی م ہ ہو چ ے‬ ‫ہیں‘ لیکن میں آج تک پہ ے روز کی طرح ص ر پر کھڑا ہوں۔‬

‫ٹھرکی ب ب‬

‫منس نہ‬


‫بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کوئی ک دھندہ کرتے نہیں‘ ہوت بھی نہیں ۔ سچی‬ ‫یہ بھی ہے کہ ا کرنے کی طرف طب یت ج تی بھی نہیں۔ چ رپ ئی پر‬ ‫لیٹ ج ؤ اور وق ے وق ے سے‘ اص ی نق ی ہ ئے ہ ئے کے ن رے لگ ؤ‬ ‫تو ج ن آس نی سے نک نے کی دع ئیں شروع ہو ج تی ہیں۔ ہ ئے ہ ئے‬ ‫میں پھرتی آنے کی صورت میں سورتہ یسین کی تالوت شروع کر دیتے‬ ‫ہیں کہ جیسے ابھی پھر ہوا۔ اگر بال ہ ئے ہ ئے گھر دن گزارو تو م ضی‬ ‫کے نکمےپن کے گ ے شکوے شروع ہو ج تے ہیں۔ کہ ج نے لگت ہے‬ ‫ہٹ کٹ ہے‘ اسے ہڈحرامی ک مرض الح ہو گی ہے۔ اس صورت ح ل‬ ‫سے نج ت کے لیے ہ عمر سنگی گ ؤں کے ب ہر پیپل کے پیڑ کے‬ ‫نیچے چ رپ ئی ں بچھ لیے ہیں۔ سردیوں میں دھوپ میں بیٹھ کر م ضی‬ ‫کے قصے دہراتے ہیں۔ مرچ مص لحہ تو خیر لگ ن ہی پڑت ہے ورنہ‬ ‫ب ت توجہ نہیں پکڑتی۔ ہ ں رائی ک پہ ڑ نہیں بن تے۔ کبھی سی ست‬ ‫موضوع بن ج تی ہے۔ مہنگ ئی بھی زیر گ تگو آتی رہتی ہے۔ کبھی‬ ‫لطی ےب زی ک دور شروع ہو ج ت ہے۔ اس طرح دن اچھ ‘ پرلطف اور‬ ‫مصروف گزر ج ت ہے۔‬ ‫اس روز لطی وں ک دور چل رہ تھ ۔ س را دن ہنسی خوشی اور چھڑا‬ ‫چھ ڑی میں گزرا۔ دن بھر ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگ تے رہے۔‬ ‫مسک نوں کے پھول جھولی میں ڈالے‘ لبوں پر دبی ہنسی اور آنکھوں‬ ‫میں روم نی کی یت اور جوانی کی سی چمک دمک لیے‘ میں اپنی زوجہ‬ ‫م جدہ کے گھر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ رستے میں نیک ں جو ادھ کھڑ‘‬ ‫واجبی س بوتھ اور کپ جس رکھتی تھی۔ اسے اچھی بری نظر‬ ‫دیکھنے کی میں سوچ بھی نہیں سکت تھ ‘ مل گئی۔ میں نے لطی وں کی‬ ‫شرارت کی آغوش میں رہتے ہوئے‘ اس کی طرف دیکھ ۔ وہ یوں پھٹ‬


‫پڑی‘ جیسے میں نے اسے گولی م ر دی ہو۔ اس سے پہ ے ہزار ب ر‬ ‫مل چکی تھی لیکن خ موشی سی گزر ج تی تھی۔ عورتیں جمع ہو گئیں‬ ‫اور مجھے طنزیہ اور حیرتیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ لوگوں نے‬ ‫عمر ک لح ظ کی ورنہ چھتر تو پڑھ گئے تھے۔ ب ب ٹھرکی کے خط‬ ‫سے بھی سرفراز کی ۔ گھر پہنچنے سے پہ ے میری روم ن پروری کے‬ ‫قصے مع لگی لیپٹی گھر کی دہ یز پ ر کر گئے۔ بڑے اونچے درجے ک‬ ‫خیرمقد ہوا۔ اس سے تو اچھ تھ کہ چھتر ہی پڑ ج تے۔‬ ‫اس واق ے سے ایک اچھ ضرور ہوا‘ ج بھی گ ی سے گزرت ‘ چنچل‬ ‫شوخ اور مٹک مٹک کر چ تی بیبی ں‘ مجھے دیکھ کر‘ کبھی دبے اور‬ ‫کبھی کھل کھال کر‘ ہنس پڑتیں۔ ا کی تھ ‘ گھر دوزخ میں ج ت ‘ ب ہر‬ ‫حوروں پریوں کی مسکراہٹوں کے غول میں‘ زندگی کے کرخت مجبور‬ ‫اور بیم ر لمحے گزارنے لگ ۔ کبھی کسی کی آنکھوں کی شوخی شک‬ ‫میں ڈال دیتی لیکن میں اپنے آپے میں رہت ۔ میں تو اپنے والی کے ق بل‬ ‫نہ رہ تھ ‘ کسی بی بی کی لذاتی حس کو کی تسکین دے پ ت ۔ سوچت‬ ‫ک ش یہ س جوانی میں ہو ج ت ۔ ن تو خیر بڑھ پے میں بھی پیدا کر لی‬ ‫تھ ۔ ہر چھوٹ بڑا‘ منہ پر مجھے ب ب ٹھرکی کہت اور س تھ میں ب آواز‬ ‫ب ند قہقہے بھی داغت ۔ دوستوں میں ن پیدا ہو گی ۔ مجھے دیکھتے تو‬ ‫کہتے‘ اوہ الڑا آ گی جے۔ ہ ں ان کے چہرے کی بےبس الچ ر اور خوف‬ ‫ن ک جھری ں‘ ان کے بڑھ پے کی بےچ رگی اور اوالد کی الپرواہی کی‬ ‫چغ ی ضرور کھ رہی ہوتیں۔‬

‫کرنسی ثبوت‬

‫افس نہ‬


‫ش ہ‘ اس کے چی ے چمٹے گم شتے اور دفتری اہل ک ر زب نی کالمی‬ ‫قسموں یہ ں تک کہ لکھتوں پڑتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے‬ ‫نزدیک ج ل س زی ک عمل شروع سے چال آت ہے۔ اللچ لوبھ میں آ کر‬ ‫انس ن ایم ن تک بیچت آی ہے۔ دوسرا چور ی ر ٹھگ کی قسموں پر یقین‬ ‫کر لین کھ ی حم قت کے مترادف ہے۔ زب نی ک کون یقین کرے‘ رائی‬ ‫سے پہ ڑ بنت چال آی ہے۔ وہ پریکٹیکل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے‬ ‫نزدیک‘ کرنسی ثبوت ہی ح سچ ک ع بردار ہوت ہے۔ س تھ میں‘‬ ‫ن یس خوش بو اور پرذائقہ پکوان ح سچ کو جال بخشت ہے۔ پیٹ میں‬ ‫کچھ ہو گ تو ہی ح سچ کی کہی ج سکتی ہے۔ خ لی پیٹ جو بھی‬ ‫فیص ہ ہو گ غ ط ہو گ ۔ غ ط فیص ے سوس ئٹی میں انتش ر اور فس د ک‬ ‫دروازہ کھولتے ہیں۔‬ ‫اگرچہ اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑت کیوں کہ وہ ہر نئے‬ ‫آنے والے کے بھی اس کی آمد کے ب د وف دار بن ج تے ہیں۔ جی‬ ‫حضور جی سرک ر جی جن ک انہوں نے پوری توجہ سے وظی ہ کی‬ ‫ہوت ہے۔ گیے کی کمی ں‘ کمزوری ں‘ کوت ہی ں اور خ می ں دل کے دفتر‬ ‫پر رق کی ہوتی ہیں۔ اس کے ب وجود موجود کے م قول ہونے کی‬ ‫صورت میں‘ نئے کی کچھ زی دہ خوہش نہیں کرتے۔ خدا ج نے نی کیس‬ ‫ہو اور س تھ آئے چمچے کڑچھے‘ انہیں اس کے نزدیک ج نے دیں ی‬ ‫نہ ج نے دیں۔ گوی نئے کے س تھ ایڈجسٹ ہونے میں‘ کچھ تو وقت‬ ‫لگے گ ہی۔‬ ‫نی آنے کی بج ئے‘ محدود وقت تک سہی‘ موجود پران گرہ سے ج ئے‬ ‫گ ۔ گرہ ک احس س کہتری انہیں کسی بھی ح لت میں گوارہ نہیں ہوت ۔ رہ‬ ‫گئی عزت ی وق ر کی ب ت‘ اس ک کی ک ی زی دہ ہوتی رہتی ہے۔ ہ ں‬


‫کھیسہ جتن فربہ ہو گ ‘ عزت میں اسی تن س سے اض فہ ہو گ ۔‬ ‫الڈو ک اصل ن تو منزہ خ ن تھ لیکن اس کے م ئی ب پ اک وتی ہونے‬ ‫کے سب ‘ اسے پی ر سے الڈو کہ کرتے تھے۔ پھر یہ ہی ن عرف میں‬ ‫آ گی ۔ سسرال میں آ کر بھی‘ یہ ہی ن رواج پ گی ۔ یہ ں تک کہ اس ک‬ ‫بندہ جیج بھی اسی ن سے پک رنے لگ ۔ الڈلی ہونے کے ب عث اس کی‬ ‫ع دتیں ہی نہ بگڑی تھیں‘ مزاج بھی بگڑ گی تھ ۔ سوہنی سونکھی اور‬ ‫اچھ لب س زی تن کرنے سے اور بھی نکھر نکھر ج تی تھی۔ مح ے‬ ‫کے گھبرو مر مر ج تے لیکن وہ کسی کو گھ س نہ ڈالتی۔ ج تک م ئی‬ ‫ب پ کے گھر رہی‘ اس ک کردار یہ س ہونے کے ب وجود ص ف ستھرا‬ ‫رہ ۔ کوئی اس کے کردار پر انگ ی نہ اٹھ سکت تھ ۔ ہر کوئی اس کے‬ ‫ب کردار ہونے کی گواہی دیت تھ ۔‬ ‫سسرال میں میں آ کر کچھ عرصہ سگنوں ک گزار کر اسے اپنے گھر‬ ‫کی ذمہ داری سمبھ لن ہی تھی۔ کوئی ہنر اور کس اس کے ہ تھ میں نہ‬ ‫تھ ‘ پکی پک ئی کھ تی تھی۔ ا اسے پک کر کھ ن اور خ وند کو کھالن‬ ‫تھ ۔ جیج س را دن ک میں ج ن کھپ ت تھ ‘ رات کو گھر کی پکی کھ ن‬ ‫اس ک ح تھ ۔ لیکن سوائے الڈ نخرے کچھ ہ تھ نہ لگت ۔ بےچ رہ صبر‬ ‫شکر کے گھونٹ پی کر رہ ج ت ۔ آتی ب ر ب زار سے کچھ لے آت ۔ مزے‬ ‫کی ب ت یہ کہ وہ بھی بھوکی رہتی اور اس کے آنے ک انتظ ر کرتی کہ‬ ‫آتے ہوئے ب زار سے کھ نے کے لیے کچھ لیت آئے گ ۔ یہ س س ہ ک‬ ‫تک چل سکت تھ ۔ ب زار ک کھ ن وارہ بھی نہیں کھ ت ۔‬ ‫ابتدا میں ک سے لیٹ ہو ج ت تو رٹ ڈال کر بیٹھ ج تی کہ اتنی دیر‬ ‫کیوں ہو گئی۔ کہ ں اور کس کے پ س ج تے ہو۔ ضرور ت نے ب ہر کوئی‬ ‫رکھی ہوئی ہے۔ الکھ قسمیں کھ ت لیکن کہ ں‘ وہ کسی قیمت پر یقین‬ ‫کرنے پر تی ر نہ ہوتی۔ اس ک اسے ایک حل مل گی آتے ہوئے کوئی‬


‫ن کوئی تح ہ س تھ لے آت ۔ کبھی نقدی دے دیت تو اس کی زب ن کو ت لہ‬ ‫لگ ج ت ۔ اگر کبھی کوت ہی ی ک زور گرہ آڑے آ ج تی تو وہی کل ک ی ن‬ ‫شروع ہو ج تی۔ شک کی زد میں آ کر سکون غ رت کر لیت ۔ ا اس کی‬ ‫سمجھ میں آ گی کہ یہ ش ہ اور ش ہ والوں کے قدموں پر ہے۔ قسموں‬ ‫وغیرہ کی یہ ں کوئی قدر قیمت نہیں‘ یہ ں تو کرنسی ثبوت ہی ک آ‬ ‫سکتے ہیں۔ محنت اور حالل کی کم ئی میں‘ اوپر ت ے کرنسی ثبوت‬ ‫فراہ کرن ممکن ہی نہیں۔ ہ ں ایک ب ت اس کے کریڈٹ میں ج تی تھی‬ ‫کہ الڈو م مولی سے کرنسی ثبوت پر بھی راضی ہو ج تی بل کہ بھرپور‬ ‫خوشی ک اظہ ر کرتی۔‬ ‫ب زار سے کھ ن الن اور ہر روز ب زاری کھ ن کھ ن ‘ بال شبہ بڑا کھٹن‬ ‫گزار ک تھ ۔آخر اس نے اس سے چٹھک رے ک بھی طریقہ سوچ ہی‬ ‫لی ۔ ک سے آ کر تح ہ ی نقدی الڈو کی ت ی پر دھرت پھر تھوڑا ریسٹ‬ ‫کرنے کے ب د کچن میں گھس ج ت ۔ الڈو کو آواز دیت ۔ کچن ک ک ج نت‬ ‫تھ ۔ الڈو کو بھی بڑے پی ر سے س تھ میں مصروف کر لیت ۔ ابتدا میں‬ ‫اس سے چھوٹے موٹے ک لیت رہ ۔ آہستہ آہستہ لوڈ بڑھ ت گی ۔ ایک‬ ‫وقت ایس آی کہ الڈو کچن کے امور سے واقف ہو گئی۔ ب د ازاں تقریب‬ ‫اس نے کچن کے ک سے ہ تھ کھینچ لی ۔ وہ ہی ک کرنے لگ جو ابتدا‬ ‫میں الڈو کی کرتی تھی۔ الڈو کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ جیج کچن‬ ‫کے اص ی ک سے دور ہٹ گی ہے۔‬ ‫ایک دن وہ دونوں کچن میں مصروف تھے کہ جیجے ک پ ؤں ہللا ج نے‬ ‫قدرتی ی ج ن بوجھ کر پھسال اور وہ بالتک ف کچن کے فرش پر آ رہ ۔‬ ‫ہ ئے ہ ئے کی آوازیں نک لنے لگ ۔ الڈو اسے سمبھ ال دے کر چ رپ ئی‬ ‫تک لے آئی۔ اس کی کمر اور ٹ نگیں دب نے لگی۔ پریش نی اس کے‬ ‫چہرے پر ص ف دکھ ئی دینے لگی۔ اس ک مط یہ تھ کہ وہ اس سے‬


‫پی ر بھی کرتی تھی۔ ٹ نگیں دب تے پورا زور لگ رہی تھی۔ جیجے کو‬ ‫بڑا ای سواد آی ۔ یہ مزا ہی الگ سے تھ ۔ پھر وہ گھبرا کر مح ہ کے‬ ‫ڈاکٹر کے پ س ج نے لگی۔‬ ‫اس نے کہ ‪ :‬رہنے دو‘ میرے پ س اتنے ف لتو پیسے نہیں جو ڈاکٹر کی‬ ‫دواؤں پر خرچ کرت پھروں۔ یہ ں سے ف ر ہو کر ریت گر کرکے ٹکور‬ ‫کر دین ۔ ان پیسوں سے تمہ را گوٹے کن ری واال دوپٹہ الن ہے۔ کتنی‬ ‫اچھی اور پی ری لگو گی۔‬ ‫جیجے کی ب ت سن کر الڈو ک چہرا خوشی سے سرخ ہو گی ۔ اس نے‬ ‫دل میں سوچ جیج مجھ سے کتن پی ر کرت ہے۔‬ ‫الڈو نے جواب کہ ‪ :‬ہ ئے میں مر ج ں ت سے پیسے اچھے ہیں۔‬ ‫بہرطور اس نے نہ ج نے دی کیوں کہ وہ اس مزے سے ہ تھ دھون‬ ‫نہیں چ ہت تھ جیج ش تک ن ز نخرے دکھ ت رہ لیکن اس نے کرنسی‬ ‫ثبوت الڈو کی ہتھی ی پر نہ رکھ کہ کہیں پیسوں کے نشہ میں‘ اپن‬ ‫ج ری کرتوے ہی نہ فراموش کر دے۔‬ ‫اس نے نے اگال دن بھی گھر پر گزارا اور الڈو سے ن زبرداری ں کروات‬ ‫رہ ۔ ہ ں البتہ اگ ے دن چ رپ ئی سے اٹھ گی اور الڈو ک کندھ پکڑ کر‬ ‫غسل خ نے وغیرہ ج ت رہ ۔ اس دورانیہ میں الڈو نے کچن سمبھ لے‬ ‫رکھ ۔ ا وہ ٹھیک سے کوکنگ کرنے لگی تھی۔ تھوڑی بہت کمی رہ‬ ‫ہی ج تی ہے‘ جو آہستہ آہستہ دور ہو ج تی ہے۔ اگ ے دن ک پر ج نے‬ ‫لگ تو الڈو نے کہ رہنے دو ک تو ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی ج ن ک خی ل‬ ‫کرو۔ وہ مسکرا کر کہنے لگ بھ ی لوکے ک نہیں کریں گے تو کھ ئیں‬ ‫گے کہ ں سے۔ ہ ں وہ گوٹے کن ری واال دوپٹہ بھی تو الن ہے۔ پھر وہ‬ ‫الٹھی کے سہ رے چ ت ہوا دروازے سے ب ہر نکل گی ۔‬


‫وہ ج نت تھ ‘ آج الڈو خالف م مول دروازے پر کھڑی بڑے پی ر سے‘‬ ‫اسے ج ت ہوا دیکھ رہی ہے۔ وہ جوں کی چ ل چل رہ تھ اور پیچھے‬ ‫مڑ مڑ کر دیکھ رہ تھ ۔ الڈو واق ی کھڑی تھی۔ کبھی وہ کسی گھر کی‬ ‫دیوار کی ٹیک لے کر کھڑا ہو ج ت اور پی ر سے ہ تھ ہالت ۔ ا وہ نظر‬ ‫نہیں آ رہ ۔ اس امر کی بہرطور اس نے تس ی کر لی۔ پھر اس نے الٹھی‬ ‫بگو ن ئی کے حم میں رکھی اور تیز قدموں اپنے دھندے کی ج ن‬ ‫بڑھ گی ۔ ش کو اس نے ب زار سے گوٹے کن ری واال دوپٹہ خریدا۔‬ ‫واپسی پر بگو ن ئی کے حم سے الٹھی لی اور گھر میں داخل ہوتے‬ ‫ہی صبح والی ایکٹنگ دوہرائی۔ الڈو نے دوڑ کر اسے پکڑا اور آرا‬ ‫سے چ رپ ئی پر بٹھ دی ایسے جیسے ابھی ابھی چوٹ لگی ہو۔ گوٹے‬ ‫کن ری واال دوپٹہ لے کر وہ اور بھی خوشی سے پ گل ہو گئی۔ اس نے‬ ‫ج دی ج دی اس کے ہ تھ دھالئے اور کھ ن جو آج اس نے خود ہی بن ی‬ ‫تھ ‘ جیجے کے س منے پروس دی ۔‬ ‫یہ عمل کئی دن چال۔ آخر ک تک‘ اسے پتہ چل گی کہ جیج یہ س را‬ ‫ڈرامہ رچ ت رہ ہے۔ پھر کی تھ ‘ جوں ہی وہ اداک ری کرت ہوا گھر میں‬ ‫داخل ہوا‘ الڈو نے اس کے ہ تھ سے الٹھی پکڑ کر زمین پر پٹخ دی۔‬ ‫قسمت اچھی تھی‘ ورنہ غصہ میں دو چ ر اس کی ٹ نگوں پر بھی جڑ‬ ‫سکتی تھی۔ اسے م و ہو گی کہ ڈھول ک پول کھل گی ہے۔ وہ مردہ‬ ‫قدموں چل کر چ رپ ئی پر آ بیٹھ ۔ پھر کی تھ ‘ رانی توپ ک دھ نہ اپنے‬ ‫شب میں آ گی ۔ جھوٹ تھ ‘ چپ رہنے کے سوا اور کر بھی کی سکت‬ ‫تھ ۔ اسے اپنی غ طی ک احس س ہو گی کہ وہ الٹھی حم میں رکھت رہ‬ ‫ہے۔ حم میں ب ت ک ج ن ‘ پورے عالقہ کی پورے م ک میں آ ج نے‬ ‫کے مترادف ہے۔‬ ‫الڈو نے گرج دار آواز میں کہ ‪ :‬ب ہر ٹھیک ہوتے ہو گھر میں داخل‬


‫ہوتے ہی تمہیں بیم ری پڑ ج تی ہے‘ تمہ ری ٹ نگیں دب دب کر میرے‬ ‫ہ تھ رہ گئے ہیں۔‬ ‫اس کے پ س اس ک کوئی جوا نہ تھ ‘ پھر بھی اس نے کہ ‪ :‬گرا گھر‬ ‫میں تھ ی ب ہر۔ ب ہر گرت تو بیم ری ب ہر پڑتی۔‬ ‫مزید گرجنے کی بج ئے اس ک جوا سن کر الڈو ک ہ س نکل گی ۔ جوں‬ ‫ہی الڈو کے منہ سے یہ پھول پھوارہ پھوٹ اس نے ج دی سے الڈو کو‬ ‫گ ے سے لگ لی اور اس کے گ ے میں بڑا ہی خو صورت ارٹی یشل‬ ‫ہ ر ڈال دی ۔ الڈو ک بوالرا خوشی میں بدل گی ۔ جو بھی سہی‘ اس کے‬ ‫اس ڈرامے کے نتیجہ میں‘ الڈو کھ ن پک نے کے س تھ س تھ گھر کے‬ ‫دوسرے ک بھی انج دینے لگی۔ یہ س ری کرامت اس کرنسی ثبوت‬ ‫کی تھی‘ جو الڈو کے گ ے میں پڑا اپنی حیثیت اور اہمیت بڑے دھڑلے‬ ‫سے جت اور منوا رہ تھ ۔‬

‫ٹیڑھی دیوار‬

‫منس نہ‬

‫زمین کے س سے بڑے لمبڑ ک اق متی ایوان بالشبہ زمین پر اپن ث نی‬ ‫نہ رکھت تھ ۔ جو کوئی بھی وہ ں قد رکھت ‘ سہم سہم تو پہ ے ہی ہوت‬ ‫لیکن ایوان کی ش ن و شوکت اور اس کی دیواروں سے ٹپکت ج ہ و‬ ‫جالل اسے اور بھی سہہ م دیت ۔ ایک طرح سے اس پر لرزہ س ط ری‬ ‫ہو ج ت ۔ وہ وہ ں کے بڑے گولے تو ایک طرف‘ ج رو کشوں سے‬


‫بھی بڑے اد اور تمیز سے ب ت کرت مب دہ کسی ل ظی گست خی کی‬ ‫شک یت کے بھگت ن میں اپنے م ک کی برب دی ک سب بن ج ئے ی پھر‬ ‫اپنے م ک کی سی ہی س یدی کی م کیت سے محر ہو کر جہن رسید نہ‬ ‫ہو ج ئے۔ وہ انہیں بھی کورنش بج الت محت ط قدموں سے آگے بڑھت ۔‬ ‫یہ ج نتے ہوئے کہ اس کی ت میر میں اس کے اپنے م ک کے مزدور‬ ‫کی مشقت کی کم ئی بھی ش مل ہے۔ بڑے لمبڑ کے حضور پیش کر دیے‬ ‫ج نے کے ب د پورے جثے پر اد و احترا ط ری کرتے ہوئے نگ ہ‬ ‫روبرو رکھت ۔ بہت کچھ کہنے کی آرزوئیں من میں سمیٹ کر الت لیکن‬ ‫کہہ نہ پ ت ی کہنے ک موقع ہی نہ دی ج ت ۔ ہ ں احک م ت کی بوری اس‬ ‫کے سر پر رکھ دی ج تی اور دفع دف ن ہونے ک امر ص در کر دی ج ت ۔‬ ‫یہ وزن جو اس کی بس ت سے ب ہر ہوت لیکن اس کے لبوں پر رح کی‬ ‫التج کے برعکس بڑے لمبڑ کی دری دلی اور انص ف پروری ک ترانہ‬ ‫رقص ں ہوت جو اپنے م ک کے کسی گم شتہ ل ظ تراش سے لکھوا کر‬ ‫لے گی ہوت ۔‬ ‫ایک روز بڑا لمبڑ اپنے درب ر سے اق متی ایوان میں داخل ہوا تو اسے‬ ‫ایوان کی دیواروں میں جاللتی کمی سی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے‬ ‫لگ آج ک یہ م مولی س نقص آتے کل کو اس کی ارضی خدائی کے‬ ‫زوال کی وجہ بن سکت ہے۔ اس نے پیچھے پیچھے آتے ایک جی‬ ‫حضوریے سے کہ کہ ہم رے ایوان کی دیواروں میں ہم رے ش ی ن‬ ‫ش ن رع و دبدبہ موجود نہیں۔ جی حضوری جو کسی غال م ک ک‬ ‫ب شندہ تھ ہ ں میں ہ ں نہ مال کر اپنی بےدوسی ج ن سے کیوں ج ت ۔‬ ‫اس نے ایک لمحہ بھی ض ئع کیے بغیر کہ کہ جی حضور آپ سولہ‬ ‫آنے درست فرم رہے ہیں۔ بڑے لمبڑ نے احک م ت نوٹ ک ر سے‬ ‫مخ ط ہو کر بڑی تمکنت سے ارش د فرم ی کہ محکمہ ت میرات کے‬


‫وزیر کو حک ج ری کی ج ئے کہ اس ب نقص عم رت کو مسم ر کرکے‬ ‫فورا سے پہ ے ہم ری ش ن و شوکت سے میل کھ ت محل ت میر کرنے‬ ‫ک اہتم کی ج ئے۔ پھر کی تھ ‘ بڑے لمبڑی اداروں کو حک ج ری ہوا‬ ‫کہ نئی ت میر کے لیے روپے پیسے فراہ کرنے ک انتظ کریں۔ کوت ہی‬ ‫کی صورت میں مت قہ ادارہ انچ رج اپنی نوکری سے ج ئے گ ۔‬ ‫چھین جھپٹی کے ب عث دنی جہ ن میں افرات ری کی صورت پیدا ہو گئی۔‬ ‫وہ اپنے عالقہ کی خوش ح لی ک خواہ ں تھ دوسرا وہ وہ ں کی کسی‬ ‫قس کی گڑبڑ کے تحت پیدا ہونے والی سردردی مول نہ لین چ ہت تھ ۔‬ ‫وہ ں کے م مالت حی ت م مول کے مط ب رہے اور ان کی آگہی محض‬ ‫خبروں تک محدود رہی۔ وہ ں یہ ب ت مشہور کی گئی کہ وہ ں کی‬ ‫حکومیتں عوا کے س تھ ظ توڑ رہی ہیں۔ گوی ان کے دلوں میں ن رت‬ ‫ہی پیدا کی گئی۔ انس ن دوستی اور مظ وموں کی مدد کے ن پر بڑے‬ ‫لمبڑ کی فوجیں اور ہتھی ر ک میں الئے گئے۔ عظی لمبڑداری محل کی‬ ‫ت میر میں کئی س ل لگ گئے۔ جہ ں محل کی ت میر کے لیے خزانے‬ ‫جمع کیے گیے وہ ں اداروں کے وڈیروں کی تجوریوں کو بھی کم ل کی‬ ‫خوش ح لی دستی ہوئی۔ پوری دنی بدح ل اور خون میں نہ گئی اسے‬ ‫اس سے کی غرض تھی۔ ایک فرد بھی ب قی نہ رہت ‘ اس کی بال سے۔‬ ‫اس ک بےمثل اور بےمث ل ت میر ہون پہال اور آخری ک ز تھ ۔‬ ‫ج محل ت میر ہوگی تو جیبی و اعض ئی م ذور دنی کے لوگوں کے‬ ‫امیروں وزیروں کو اپنی وج ہتی دھ ک بٹھ نے کے لیے بالی گی ۔ انہیں‬ ‫مزید گرہ میں کرنے کے لیے تح ئف النے کی خریداری کے لیے دل‬ ‫کھول کر قرضے دیے گیے۔ یہ بھی حک دی گی کہ تح ئف کی‬ ‫خریدداری اس کے ہ ں کی م رکیٹ سے کی ج ئے۔ اس حک کے نتیجہ‬ ‫میں وہ ں کے تج رتی عمل کو استحق میسر آی ۔ گوی تج ر حضرات کے‬


‫لیے بھی خوش ح لی ک دروازہ کھول کر بہت بڑا پن گرہ میں کی ۔ یہ ہی‬ ‫نہیں ان کی فیور بھی ح صل کر لی۔‬ ‫محل کے ہ ل میں یہ لوگ جمع ہوئے۔ محل کے ب کم ل اور الجوا‬ ‫ہونے میں کوئی شک ہی نہ تھ ۔ س عش عش کر اٹھے۔ پھر انہیں‬ ‫محسوس ہوا کہ محل لرز رہ ہے۔ اطراف سے انہوں نے ارواح کی‬ ‫خوف ن ک چیخ و پک ر سنی۔ وہ ڈر اور خوف سے محل کے ہ ل سے‬ ‫دوڑ دوڑ کر ب ہر آنے لگے۔ بڑے لمبڑ کی فکر‘ سم عت اور بص رت پر‬ ‫شیط نی ق ل پڑا ہوا تھ اس لیے وہ کچھ دیکھ اور محسوس نہ کر پ‬ ‫رہ تھ ۔ وہ یہ ہی سمجھ رہ تھ کہ اس ک ج ہ و جالل اور ش ہی دبدبہ‬ ‫یہ کمی کمین دنی کے برداشت نہیں کر پ رہے۔ اس کے اور اس کے‬ ‫جھولی چکوں کے قہقہے ہ ل میں گونج رہے تھے۔ بڑے کو یہ امر ی د‬ ‫تک نہ رہ کہ نمرود شداد اور فرعون بھی اسی طور کے قہقہے لگ ی‬ ‫کرتے تھے۔ ایک روز وہ س ان قہقہوں کی زد میں آ کر ہالک ہو گئے‬ ‫اور قی مت تک کے لیے عبرتی آث ر و نش ن ت چھوڑ گئے۔‬

‫ش ہی ہ تھی‬

‫لوک نہ‬

‫اوئی اوئی لینڈ ک ش ہی ہ تھی جنگل میں گ ہو گی ۔ م کی تالش ک ر اور‬ ‫ت تیش ک ر ادارے تالشتے تالشتے تھک ہ ر گئے لیکن ہ تھی نہ ڈھونڈا‬ ‫ج سک ۔ ن چ ر فرانس سے اس ذیل میں مدد لی گئی۔ وہ ں کے اس‬


‫ش بہ سے مت ادارے بھی منہ لٹک کر رہ گئے۔ اس کے ب د جرمن‘‬ ‫اٹ ی اور چین سے مدد ح صل کی گئی لیکن ان کے ہ تھ بھی م یوسی‬ ‫کے سوا کچھ نہ لگ ۔ بھ رت کے م روف تالش ک ر پریدی م ن اپنے‬ ‫س تھیوں سمیت بڑے اعتم د کے س تھ مصروف تالش رہ لیکن وہ اور‬ ‫اس س تھی بھی اپنی ن ک می پر سر پکڑ کر رہ گئے۔ دین کے چوھوری‬ ‫کے ب نٹک ادارے بڑے کروفر سے میدان میں اترے لیکن تالش کے‬ ‫حوالہ سے ان کے منہ پر بھی ب رہ بج گئے۔‬ ‫ن امیدی کے ب دل گہرے ہوتے گئے۔ ان ن زک اور حس س لمحوں میں‬ ‫پ کست ن کے تالش ک ر اور ت تیش ک ر ادارے اس م یوس اور اداس‬ ‫اداس فض میں امید کی کرن بن کر حرکت میں آ گئے۔ س یہ ہی کہہ‬ ‫رہے تھے دنی کے ترقی ی فتہ ادارے کچھ نہیں کر پ ئے‘ بھال یہ کی کر‬ ‫پ ئیں گے۔ ایک گھنٹہ بھی نہ گزر پ ی ہو گ کہ مثبت رزلٹ س منے آ گی ۔‬ ‫ش ہی درب ر میں جم ہ م کوں کے اع ی عہدےدار تشریف فرم تھے کہ‬ ‫ش ہی ہ تھی درب ر میں ح ضر کر دی گی ۔ س ہنس پڑے کہ وہ ہ تھی‬ ‫نہیں گدھ تھ ۔ ان کے ہنستے پر کون ج ت ‘ جسے وہ گدھ قرار دے‬ ‫‪:‬رہے تھے‘ وہ ب آواز ب ند اقرار کیے ج ت تھ‬ ‫میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔۔۔۔۔میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔‬ ‫اس کی اقراری آواز اور پراعتم د بی ن و لہجے کو جھٹالنے ک کسی‬ ‫کے پ س جواز ہی ب قی نہ رہ تھ ۔‬ ‫ک ن پھوسی ک دور شروع ہو گی ۔ ہر کسی نے کہن شروع کر دی کہ‬ ‫گدھ ہی ش ہی سواری ک ج نور‘ ش ہی ہ تھی قرار پ ی ہو گ ۔ یہ ک ن‬ ‫پھوسی ب ند آوازوں میں بدل گئی۔ ہر کوئی اسے گ شدہ ش ہی ہ تھی‬ ‫قرار دے رہ تھ ۔ اوئی اوئی لینڈ کے ش ہ نے ج یہ صورت ح ل‬ ‫دیکھی تو اس کے انک ر نے بھی ہ ں ک لب دہ اوڑھ لی ۔ ش ہی اعالن‬


‫ج ری ہوا کہ یہ ہی ش ہی ہ تھی تھ ۔‬ ‫مب رک ب د کی صدائیں ب ند ہوئیں۔ بڑی ش ندار دعوت اڑائی گئی۔ ش ہی‬ ‫ہ تھی کو ہ تھی ب ن کے حوالے کر دی گی ۔ وہ بھی کہے ج رہ تھ ‘ یہ‬ ‫ہی ش ہی ہ تھی تھ اور میں اسی کی خدمت کی کرت تھ ۔ م کوں م کوں‬ ‫کے عہدےدار اپنے اپنے وطن ٹر گئے۔‬ ‫پ کست نی تالش ک ر اور ت تیش ک روں کو ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں‬ ‫سے نوازا گی ۔ بال شبہ انہوں نے بڑی محنت‘ لگن اور مشقت سے یہ‬ ‫فریضہ انج دی تھ ۔ ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں کے وہ ج ئز ح‬ ‫دار تھے۔‬

‫چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ‬

‫اس سے پہ ے رواں ہ تے میں وہ تین شدہ خواتین کے جن زے پڑھ‬ ‫چک تھ اور مت قین سے رسمی اور ج ی ہی سہی‘ اظہ ر افسوس بھی‬ ‫کر چک تھ ۔ گزرتے ہ تے میں ہی‘ ہ س ئے کی جوان اور منہ متھے‬ ‫لگتی شدہ خ تون ک جن زہ اٹھ تو بےاختی ر اس کے آنسو چھ ک پڑے۔‬ ‫اس نے الکھ چھپ نے کی کوشش کی لیکن کھوجی آنکھوں سے‘‬ ‫آنسوؤں کی لک چھپی چھپ نہ سکی۔ پھر کی تھ ‘ ک ن پھوسی ک عمل‬ ‫ج ری ہو گی ۔ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ک ن‬


‫میں‘ اس کے آنسوؤں کی کہ نی پہنچ گئی۔ ک ن دفن ک عمل خت ہوا تو‘‬ ‫بیبیوں کی گرہ میں کرمے کے آنسو لگ گئے۔ ہر کسی نے اپنی کہ نی‬ ‫گھڑ لی۔ مرنے والی تو قبریں سم گئی‘ لیکن کرمے کے حوالہ سے وہ‬ ‫کچھ طے پ گی ‘ جو اس کے فرشتوں تک کو ع نہ تھ ۔‬ ‫ادیبوں کے افس نے یوں ہی خ مہ و قرط س کی زینت نہیں بنے‘ ان میں‬ ‫زی دہ نہیں تو‘ ک از ک ف ٹی پرسنٹ خواتین ک حصہ بھی ہے لیکن‬ ‫تحقیقی و تنقیدی عمل میں‘ کبھی کسی نے ان ک ذکر خیروبد کرنے کی‬ ‫زحمت نہیں اٹھ ئی۔ بال شبہ یہ ک ران ن مت کے زمرے میں آت ہے۔‬ ‫کہ گی کہ مرنے والی سے کرمے کے ن ج ئز ت ق ت تھے۔ دیکھنے‬ ‫میں کرم کتن شریف تھ لیکن اندر سے پورا نکال۔ مرنے والی کتن‬ ‫پردہ کرتی تھی۔ کسی غیرمرد سے نظریں تک نہ مالتی تھی لیکن من‬ ‫کی کتنی میسنی نک ی۔‬ ‫کچھ نے بالج نے‘ اس کے میکے کے ای بھی آلودہ کر ڈالے۔ ب ت ک‬ ‫رکتی ہے۔ کرمے کی شدہ خ تون کے ک نوں میں بھی کرمے کی عش‬ ‫ب زی کے قصے پڑ گئے۔ اگر سچ میں کچھ تھ ‘ تو چپ ک روزہ الز‬ ‫تھ کہ مرنے والی ک پردہ رکھ ج ت اور اس ک ک ن میال نہ ہونے دی‬ ‫ج ت ۔ آخر س نے جہ ں چھوڑ ج ن ہے۔ کرمے کی بیوی بال ن غہ‘‬ ‫کرمے کی بہہ ج بہہ ج پر اتر آئی۔ اس نے الکھ قسمیں اٹھ ئیں لیکن‬ ‫وہ اس مقولے کی ق ئل تھی‘ چور ی ر ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی‬ ‫ج سکت ۔ وہ پہ ے ہی اس کے لیے جہن سے کچھ ک نہ تھی‘ ا تو‬ ‫اس کے لیے ح ویہ بن گئی۔‬ ‫ب ہر آت تو محرومہ ک خ وند‘ کھ ج نے والی نظروں سے دیکھت ۔ ایک‬ ‫دو ب ر تو اس نے بالوجہ توتکرار سے ک لی ۔ وہ ہر ب ر برداشت سے‬


‫ک لیت اور نظریں بچ کر نکل ج ت ۔ اس روز تو اسے پھینٹی چڑھ گئی‘‬ ‫بہ نہ یہ بن ی گی کہ اپنے گھر ک کوڑا کرکٹ‘ اس کے گھر کے دروازے‬ ‫کے قری پھینکت ہے۔ بھولی بسری ی دیں پھر سے ت زہ ہو گئیں اور‬ ‫کرمے کی اندر خ نے کی عش لڑائی‘ پھر سے گ ی ب زار میں آ گئی۔ ہر‬ ‫دیکھت اس پر ہنست ۔ عمر رسیدہ بیبی ں‘ اسے توے توے کرتیں۔ اس‬ ‫سے ایک مثبت ب ت یہ ہوئی کہ دو ایک چ لو خواتین نے اسے چ لو‬ ‫م ل سمجھ کر الئین م رنے کی کوشش کی۔ ایک سے اس کی ڈنگ ٹپ ئی‬ ‫آڑپھس بھی ہو گئی۔ اس زب نی کالمی ان دیکھے ان ج نے عش کے‬ ‫حوالہ سے‘ چھپ رست ایس ب ندپ یہ خط بھی اس ک مقدر ٹھہرا ورنہ‬ ‫عالقہ ک کوئی ایرہ غیرہ بھی اس پر نظر نہ رکھت تھ ۔‬ ‫وہ اکثر سوچت ‘ یہ لوگ کتنے بےحس اور کہ نی ب ز ہیں۔ کسی نے ان‬ ‫آنسوؤں کی وجہ ج ننے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ یہ ب ت اپنی جگہ کہ‬ ‫کوئی پوچھت تو وہ اصل وجہ بت بھی نہیں سکت تھ ۔ اگر اگل دیت تو‬ ‫بھی پولے‘ روز ک مقدر ٹھہرتے اور اس سے بڑھ کر اس کی بری‬ ‫ہوتی اور ہر روز ہوتی۔ دوسرا مقدر ک اپن کھیل ہے۔ ہر خواہش پوری‬ ‫ہو ج ئے‘ ضروری تو نہیں۔ ہ س ئے کی بیوی ک جن زہ اٹھتے سمے‘‬ ‫اس ک یہ سوچن کہ اوروں کی عورتیں ہر دوسرے‘ قبر کی راہ لیتی‬ ‫ہیں اور اس والی اس ذیل میں ٹس سے سے مس نہیں ہو رہی۔ ہللا‬ ‫ج نے وہ یہ خوشی ک دن ک دیکھے گ ۔‬ ‫جو بھی سہی‘ یہ گھڑت بدن می رائیگ ں تو نہ گئی تھی۔ اپنی کے عالوہ‬ ‫نیک ں بالکوشش اس کی نرک حی ت میں خوشیوں ک گہن بن کر اتر آئی‬ ‫اور اس س بقہ رولے میں اس کی سچ مچ کی چھپی رستمی س منے نہ‬ ‫آئی تھی۔‬


‫ا صرف‬

‫ذاتی نہ‬

‫کی ب ت ہے۔ رات گی رہ بجے یوں محسوس ہوا جیسے‬ ‫یہ مئی‬ ‫میرا س نس بند ہو رہ ہو۔ میں ج دی سے اٹھ کر صحن میں آ گی لیکن‬ ‫بج ئے س نس ک س س ہ اپنے روٹین پر آت ‘ ح لت مزید بگڑتی گئی۔‬ ‫مجھے یوں لگ جیسے میری ج ن نکل رہی ہو۔ رضیہ‘ ی نی میری‬ ‫بیوی جو چ نے پھرنے سے م ذور سی ہے۔ بڑی پریش نی میں آ گئی۔‬ ‫وہ ب وجود اپنی سی کوشش کے مجھے سمبھ ل نہیں پ رہی تھی۔ ہ‬ ‫دونوں کے سوا تقریب گھر میں کوئی نہ تھ ۔ پھر پت نہیں اس میں اتنی‬ ‫شکتی کہ ں سے آ گئی۔ ہ س یہ کے گھر چ ی گئی۔ ہ س یہ میری سال‬ ‫دع میں تھ ۔ اس کے دونوں لڑکے آگئے اور مجھے ایک پرائیویٹ‬ ‫ہسپت ل لے گئے۔ وہ ج نتے تھے کہ سرک ری ہسپت ل میں لے ج ن کسی‬ ‫طرح خطرے سے خ لی نہیں۔ وہ ں ڈاکٹر اور عم ہ محض چ ت پھرت‬ ‫الشہ ہیں۔ رستہ میں میں بےسدھ ہو گی ۔‬ ‫موٹر س ئیکل پر لے ج ن بالشبہ ن ممکن ت میں تھ لیکن وہ مجھے‬ ‫کسی ن کسی طرح لے ہی گئے۔ ایمرجنسی میں لے ج ی گی ۔ پوری توجہ‬ ‫دی گئی۔ مکمل چیک اپ کی گی ۔ انہوں نے مجھے مردہ قرار دے دی ۔‬ ‫انتیس منٹ کے ب د ایک لمب س نس آی ۔ مجھے اسٹیچر پر لٹ کر‬ ‫برآمدے میں منتقل کر دی گی تھ ۔ ج انہیں بت ی گی کہ لمب س نس آی‬ ‫ہے تو دوب رہ سے وارڈ میں ال کر بیڈ پر لٹ دی گی اور ڈاکٹری عمل‬ ‫شروع کر دی گی ۔ س نس اور نبض کی بح لی ہوئی تو فورا سے پہ ے‬ ‫الہور لے ج نے کے لیے کہہ دی گی ۔ ہللا کے احس ن سے ٹھیک ہو گی ۔‬


‫اس عمل نے مجھے تین تجربوں سے گزرا‪:‬‬ ‫ج ن نک ن کتن مشکل ہے اور یہ عمل انس ن پر کتن دشوار گزار ‪-‬‬ ‫ہوت ہے۔‬ ‫مرنے کے ب د بھی ایک جہ ن ہے جو کہ نی نہیں حقیقت ہے۔ ‪-‬‬ ‫موت سے پہ ے مجھے ڈاکٹر ص ح پروفیسر ص ح کہہ کر پک را ‪-‬‬ ‫ج رہ تھ ۔ موت کے یقین پر کہ گی ڈیڈ ب ڈی لے ج ؤ‘ الش لے ج ؤ۔‬ ‫اتنی بےمکھی و بےرخی۔ عزت زندگی تک تھی۔ کچھ تو موت کے ب د‬ ‫بھی پروٹوکول دی ہوت ۔ محترمہ دیڈب ڈی ی الش ص حبہ لے ج ؤ۔ کی یہ‬ ‫س س نسوں تک تھ ۔ مجھے اپنی حیثیت اور کرتوت ک اندازہ ہو گی ۔‬ ‫س س نسوں تک ہے اس کے ب د کچھ نہیں۔‬ ‫ان گنت آئے اور چ ے گئے‘ کوئی ان کے مت ج نت تک نہیں۔ لوگ‬ ‫تو منہ پھیریں گے ہی اپنے بھی ج دیوں میں ہوتے ہیں۔ کسی کے پ س‬ ‫اتن وقت کہ ں کہ نہیں اور م قود کے لیے اپن وقت برب د کرت پھرے۔ یہ‬ ‫دنی ہے یہ اپنے ہیں جو شخص سے زی دہ چھنیوں اور کولیوں کو‬ ‫محتر رکھتے ہیں۔ اسی روز میں نے چیزوں کو طال دے دی۔ میں‬ ‫نے جو تھوڑا بہت موجود ہے ان لوگوں کے ن کر دی ہے۔ یہ ج نیں‬ ‫اور چیزیں ج نیں۔‬ ‫ا صرف اس امر کی فکر دامن گیر ہے کہ ہللا کے احس ن ت ک کن‬ ‫ال ظ اور کیسے شکریہ ادا کروں۔ دوسرا اپنے دانستہ اور ن داستہ‬ ‫گن ہوں کی م فی کس طرح م نگوں۔ ہللا مجھے ہر دو ک س یقہ سجھ‬ ‫دے۔ آپ س میرے لیے دع کریں۔‬


‫بڑوں ک ظرف بڑا‬

‫ذاتی نہ‬

‫ایک عرصہ اس راز کو میں نے سینے میں دفن رکھ کہ کہیں مجھ‬ ‫سے کچھ غ ط نہ ہو ج ئے۔ آج اچ نک ذہن میں یہ خی ل کودا کہ نہیں‬ ‫پگ ے اس ک سینے میں دفن رکھن درست نہیں بل کہ اس کے کہہ‬ ‫دینے سے میرے آق کری ص ی ہللا ع یہ وس کی حق نیت س منے آئے‬ ‫گی کہ وہ سچ ہی کہتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔‬ ‫جس ک میں موال اس ک ع ی موال۔‬ ‫فتح خیبر کے موقع پر انہوں نے ام ع ی ع یہ السال کو بالی تھ اور‬ ‫وہ تشریف لے آئے۔ ہ ں حیرت اس ب ت پر ہے کہ وہ م مولی نہیں‘‬ ‫م مولی ترین کے بالنے پر بھی تشریف لے آتے ہیں۔ بالشبہ بڑوں ک‬ ‫ظرف بھی بڑا ہوت ہے اور ان کی عط ئیں محدود نہیں ہیں۔‬ ‫میں ج ہسپت ل سے واپس گھر الی گی تو اپنے حواس میں نہیں تھ ۔‬ ‫مجھے چ رپ ئی پر لٹ دی گی ۔ میرے پ س رضیہ‘ میری بیوی اور میری‬ ‫بیٹی ارح پریش ن بیٹھے ہوئے تھیں۔ ہللا کے حضور میری صحت اور‬ ‫زندگی کے لیے دع ئیں م نگ رہی تھیں۔ انہوں نے بت ی کہ میں لیٹے‬ ‫لیٹے اٹھ کر چ رپ ئی سے نیچے پ ؤں لٹک کر بیٹھ گی ۔ میں نے انہیں‬ ‫مخ ط کرکے کہ ڈرن نہیں۔ پھر میں نے تین ب ر کہ ‪ :‬ی ع ی ادرقنی‬ ‫فی سبیل ہللا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ اور دروازے کے‬ ‫دونوں پٹ پوری طرح کھول دیئے۔ ان سے کہ آپ تشریف لے آئے‬ ‫ہیں۔ پھر دونوں م ں بیٹی نے دروازے سے آتی ہوئی مہک محسوس‬


‫کی۔ اس مہک نے پورے کمرے کو م طر کر دی ت ہ اس مہک نے ایک‬ ‫ہ لے کی صورت میں میرے گرد چکر لگ ی اور جس طرح سے کمرے‬ ‫میں داخل ہوئی تھی اسی طرح دروازے سے ب ہر نکل گئی۔‬ ‫ان ک کہن ہے کہ میں آرا سے چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ گہری اور خراٹے‬ ‫بھری نیند اس طرح سے ط ری ہوئی کہ ہ ئے ہ ئے کی آوازیں یکسر‬ ‫بند ہو گئیں۔ وہ دیر گئے تک میرے پ س بیٹھی رہیں۔ یوں لگ رہ تھ‬ ‫کہ میں بیم ر نہیں ہوں۔ ان ک کہن ہے کہ وہ اس مہک کو ت دیر‬ ‫محسوس کرتی رہیں۔ ان کے نزدیک ایسی مہک انہوں نے زندگی بھر‬ ‫نہیں محسوس کی۔‬ ‫لط ئف‬ ‫اس پرچ ت ے‬ ‫پریش ن نہ ہوں‬ ‫اگر آپ کی بیوی کہن نہیں م نتی تو پریش ن نہ ہوں یہ کوئی ایسی ب ت‬ ‫نہیں۔ آپ کو ی د رکھن ہو گ کہ کسی کی بھی نہیں م نتی۔‬ ‫س رے شدہ اس پرچ ت ے ایک ہیں۔‬ ‫مشورہ‬


‫ایک ب ب زندگی کی آخری س نسیں لے رہ تھ ۔ اس کے قریبی رشتہ دار‬ ‫وہ ں افسردہ اور سوگوار بیٹھے اس کے مرنے ک انتظ ر کر رہے‬ ‫تھے۔ خواتین رونے دھونے اور بین ب زی کے لیے بےچین و بےکل ہو‬ ‫رہی تھیں۔ ایک ص ص نے مشورہ دی ف ر بیٹھے ہیں ج تک ب ب‬ ‫مرت نہیں چ و اسے غسل ہی دے دیتے ہیں۔‬ ‫خ وند‬ ‫بیم ر خ وند‪ :‬مجھے ڈنگر ڈاکٹر کے پ س لے چ و۔‬ ‫بیوی‪ :‬وہ کیوں؟‬ ‫بیم ر خ وند‪ :‬روز صبح مرغے کی طرح اٹھ ج ت ہوں‘ پھر گھوڑے کی‬ ‫طرح بھ گ بھ گ کر دفتر ج ت ہوں ۔ وہ ں س را دن گدھے کی طرح ک‬ ‫کرت ہوں۔ گھر آ کر تمہ ری شک ئتیں سن کر بچوں پر کتے کی طرح‬ ‫بھونکت ہوں۔ بھیڑ کی طرح تمہ رے حضور میں میں کرت ہوں۔ ب ی کی‬ ‫طرح بچے سمبھ ت ہوں اور ت کھ ن پک تی ہو۔ بکری کی طرح کھ نے‬ ‫میں س گ پ ت کھ ت ہوں اور رات کو بھینس کے س تھ لیٹ ج ت ہوں۔‬

‫مت پڑھو‬ ‫توت دنی کی ہر زب ن بول سکت ہے۔‬ ‫اونٹ بغیر کھ ئے پیے س ر کر سکت ہے۔‬ ‫بندر بہت اچھ نق ل ہے۔‬


‫اور‬ ‫اس سے آگے مت پوچھو‬ ‫۔‬ ‫۔‬ ‫۔‬ ‫۔‬ ‫نہ پڑھو‬ ‫میں کہت ہوں نہ پڑھو‬ ‫گدھ جس ک سے منع کرو وہی کرت ہے۔‬

‫امی ک جوا‬ ‫میں پی کر نہیں بہکت اسے دیکھ کر بہک ج ت ہوں۔ اتن بت شرا حرا‬ ‫ہے ی وہ؟‬ ‫امی ک جوا ‪ :‬شرا حرا ہے اور وہ حرامزادی‬

‫محتر جن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال‬


‫خو شگوفے ہیں جن ۔ ہ بھی اس ع (ال ) کے س ئے میں آپ کے‬ ‫س تھ کھڑے ہیں۔ نصیحت تو انہیں ح صل کرنی چ ہیئے جن کے جم ہ‬ ‫حقو ہنوز غیر مح وظ ہیں۔‬ ‫اچھ لگ پڑھ کر۔‬ ‫۔۔۔۔‬ ‫بل ذکر ہے کہ آپ نے طوطے کو ت سے لکھ کر اس کی‬ ‫ایک اور ب ت ق ِ‬ ‫چونچ کے نقوش مٹ دیئے ہیں اور اس ک ح یہ بدل س گی ہے۔ یقین‬ ‫ج نئیے ت سے لکھ ہؤا توت تو ہمیں ہرا بھی نہیں دکھ رہ ۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫مح مکر حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬ ‫ہم ری طرف ایک مح ورہ مست مل ہے "ہر فن موال"۔ ش ید آپ نے بھی‬ ‫سن ہوگ ۔ سو آپ بھی "ہر فن موال" ہیں۔ کی نظ ‪ ،‬کی غزل‪ ،‬کی تحقیقی‬ ‫مضمون اور کی انش ئیہ اور ا کی ہی لطی ے۔ ہر میدان میں آپ پورے‬ ‫ہیں۔ سبح ن ہللا۔ دع ہے کہ آپ اور آپ ک ق دونوں اسی طرح چ تے‬ ‫رہیں اور ہ مست ید ہوتے رہیں۔ آپ کی یہ پھ جھڑی ں خو ہیں۔ "ڈانگر‬ ‫ڈاکٹر" والے لطی ے ک آخری جم ہ پڑھ کر میں بے اختی ر ہنس پڑا۔ یہ‬ ‫کہن ب لکل سچ ہے کہ انجمن کی رون آپ جیسے لوگوں سے ہی ق ئ‬ ‫ہے۔ ب قی راوی س چین بولت ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9179.0‬‬


‫ات‬

‫سے‬

‫ایک لطی ہ‬

‫چ ر دوست ات سے مسجد میں نم ز پڑھنے آ گئے۔ ایک س تھ وضو‬ ‫کی اور پھر ایک س تھ نم ز پڑھن شروع کی۔ ان میں سے ایک دوست‬ ‫نم ز پڑھتے ادھر ادھر بھی دیکھے چال ج رہ تھ ۔ بالشبہ یہ طور غ ط‬ ‫تھ ۔‬ ‫ان میں سے دوسرا بوال‪ :‬نم ز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے اس سے‬ ‫نم ز فس ہو ج تی ہے۔‬ ‫تیسرا بول اٹھ ‪ :‬وہ تو غ ط کر ہی رہ ہے‘ ت بھی غ ط کر رہے ہو۔ کی‬ ‫ج نتے نہیں ہو کہ نم ز میں نہیں بولتے۔‬ ‫چوتھ ب ند آواز میں ہللا ک شکر ادا کرنے لگ کہ وہ نہیں بوال وگرنہ‬ ‫اس کی نم ز بھی فس ہو ج تی۔‬


Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.